نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

336

نئے سال کا آغازپاکستانی عوام کے لیے ہر لحاظ سے تباہ کن ہوا ہے اور اس کی تباہ کاریاں اب تک جاری ہیں ۔ سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کو گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے کا مژدہ سنایا گیا ۔ پٹرول کی قیمت میںماہانہ اضافہ تو اب معمولات میں شامل ہوگیاہے ۔ گزشتہ کئی دن سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں ۔ آٹے، دال چاول ، سبزی و پھل سمیت ہر شے کی قیمت میں روز ہی اضافہ ہورہا ہے مگر قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے و افراد کہیں پر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔ ایک طرف سرکاری دعوے کیے جارہے ہیں کہ معیشت کو مستحکم کردیا گیا ہے تو دوسری جانب ہر شے کی قیمت میں بلاجواز لامحدود اضافہ جاری ہے ۔ جب سے عمرانی حکومت برسراقتدار آئی ہے ، پاکستان کی معیشت مسلسل روبہ زوال ہے ۔ بے روزگاری کا عفریت ہر سمت منہ پھاڑے کھڑا ہے ، ایسے میں مہنگائی نے مزید تباہی پھیر دی ہے ۔ عمران خان نیازی نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا اعلان مدینہ کی ریاست کے قیام کا کیا تھا تاہم عمران خان نیازی یہ بھول گئے کہ مدینہ کی ریاست ایک ماڈل فلاحی ریاست تھی جس میں بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ مقرر کردیا جاتا تھا۔ عمرانی حکومت کی مدنی ریاست کا تو یہ حال ہے کہ لوگوں کے منہ سے نوالہ ہی چھینا جارہا ہے ۔ سرکار کی گورنس کا یہ حال ہے بجلی چوری کی سزا ان لوگوں کو دی جارہی ہے جو باقاعدگی سے اپنے بل بھرتے ہیں ۔ یہ معاملات محض وفاقی حکومت تک محدود نہیں ہیں بلکہ شہری اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ آج کے جدید دور میں حکومت اس بات میں بھی ناکام ہے کہ دودھ کی پیداواری لاگت کا درست تخمینہ لگا کر اس کی ہول سیل اور ریٹیل قیمتوں کا تعین کرکے اس کا اطلاق بھی کرسکے ۔ اشیائے صرف کی درست قیمتوں کا تعین اور ان کا اطلاق حکومت کے بنیادی وظائف میں شامل ہے مگر پاکستان میں چاہے صوبائی و شہری حکومتیں ہوں یا وفاقی حکومت ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر سو اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے انہیں نواز شریف کی ہوا خوری جیسے غیر متعلقہ مسائل میں الجھادیا گیا ہے ۔ اگر ملک میں گندم کی قلت ہے تو بھی آٹے کی قیمت بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ فلور ملوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے جس قیمت پر گندم خریدا ہے ، اسی کے تناسب سے آٹا فروخت کیا جائے ۔ کچھ یہی صورتحال دیگر شعبہ جات کی ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کی وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ منافع خوروں کا کارنامہ ہے ۔