وہ ایک تصویر

349

لندن سے ملنے والی ایک تصویر نے بلاوجہ کا ایک ہنگامہ بپا کر دیا ہے اور وزیراعظم سمیت تحریک انصاف کی پوری حکومت طرح طرح کی بولیاں بول رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران طبقہ اسی تاک میں تھا کہ لندن سے کوئی ایسی چیز ہاتھ آئے جس کی مدد سے ایک بار پھر میاں نواز شریف کی بیماری کو مشکوک بنا کر اس پر سیاست کی جائے۔ وزیراعظم عمران خان تک بول اٹھے کہ ’’میں نے تصویر دیکھی ہے، سب فراڈیے ہیں‘‘۔ لیکن اگر نواز شریف کی علالت فراڈ ہے تو اس فراڈ کی توثیق میں خود عمران خان شامل ہیں۔ نواز شریف کی لندن روانگی سے پہلے بھی یہ ڈراما ہو چکا ہے اور عمران خان نے معالجین کی رپورٹوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، حتیٰ کہ ان کے اسپتال شوکت خانم کے ڈاکٹروں کی رپورٹوں کو بھی مشکوک قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’یہ پلاٹ لاٹس‘‘ نجانے کیا ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک بہت بڑے اسپتال کے بانی اور متولی ہونے کے باوجود انہیں پلیٹ لٹس کا علم نہیں تھا۔ یہ اپنا ہی مذاق اڑوانے کی بات ہے لیکن عمران خان اس سے بے نیاز ہیں۔ پھر جب معالجوں کی بات پر یقین آگیا تو باہر جانے کی اجازت دینے کے لیے کئی ارب کی ضمانت کا مطالبہ کردیا۔ عمران خان کے حواری اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا بیماری فراڈ ہے۔ گویا میاں نواز شریف ڈاکٹروں کو نہیں عدالت کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ نواز شریف کا ماضی کیا رہا، وہ کتنے بیمار ہیں اور کتنے تن درست، اس سے بحث نہیں لیکن جس تصویر کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں، اس تصویر میں ایسا کیا ہے۔ لندن کے ایک ریستوران میں میاں نواز شریف اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ خورونوش میں مصروف ہیں۔ اطلاعات تو یہ ہیں کہ وہ وہاں چائے پی رہے تھے لیکن عمرانی وزراء نے تو پورا ’’مینیو‘‘ ہی پیش کردیا۔ کچھ مسخروں کو یہ تک معلوم ہو گیا کہ نواز شریف وہاں بھی سری پائے اور نہاری کھا رہے تھے۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ یہ ’’کھائو پیو بیماری‘‘ ہے جس کا علاج کھا پی کر کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے شکروں کو کیسے معلوم ہوا کہ وہاں سری پائے اور نہاری کھائی جا رہی تھی۔ سیاسی اختلاف میں بھی تھوڑا سا سچ شامل کر لینے میں نقصان ہی کیا ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے گزشتہ منگل کو پریس کانفرنس کر ڈالی۔ کہتی ہیں کہ نواز شریف کی صحت کو اتنا خطرہ ہے تو ریستوران میں ذاتی معالج بھی ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلہ کر دیا کہ نواز شریف لندن میں علاج نہیں کرا رہے، سیر سپاٹے کرتے پھر رہے ہیں، بس اب ان کو دی گئی مہلت ختم۔ یاسمین راشد کو دو، تین دن صبر کر لینا چاہیے تھا، عمران خان کی خوشنودی کے لیے اتنی جلدی کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن بات صرف اس ایک تصویر کی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے میں حکومت یا حکومت کی سہولت کاروں کا ساتھ دے کر اپنے پر کتروا چکی ہے۔ چنانچہ اب اچانک حکومت کا لہجہ تبدیل ہو گیا ہے اور ن لیگ کے خلاف کئی محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اور مذکورہ تصویر پر ادھم مچانا بھی اسی محاذ آرائی کا حصہ ہے۔ مگر دوسری طرف خود عمرانی حکومت کو نئے محاذوں کا سامنا ہے۔ اس کے اتحادی ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا کوئی وجود نہیں اور وزراء معاملات سے نمٹنے کے اہل نظر نہیں آرہے۔ ایم کیو ایم، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی ہی نہیں اہم ترین اتحادی مسلم لیگ ق بھی منہ پھلائے بیٹھی ہے۔ بظاہر تو ق لیگ کسی اختلاف کی تردید کرتی ہے لیکن پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ وزارت علیا کا کام سیکھنے والے وسیم اکرم پلس اور نئے شیر شاہ سوری کے مقابلے میں سیکھے سکھائے پرویز الٰہی زیادہ ہوشیار ہیں مگر عثمان بزدار کی سب سے بڑی خوبی ان کی ناتجربہ کاری ہی ہے چنانچہ وہ ہر معاملے میں عمران خان کی جنبش ابرو پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ جملہ تو عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا کہ میں تو انہیں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں۔ جب کوئی حکومت اکثریت سے محروم ہو اور مانگے کی اکثریت سے کام چلا رہی ہو تو وہ اپنے اتحادیوں سے بلیک میل ہی ہوتی رہتی ہے اور ان کے تحفظات دور کرنے میں لگی رہتی ہے تاکہ اس کا اپنا تحفظ ہو۔ اس صورتحال سے نکلنے اور توجہ دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے حکومت کو کوئی ہدف درکار ہوتا ہے اور عمران خان کے پاس یہ دو اہداف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی صورت میں موجود ہیں۔ ایسے میں ایک مسخرا وزیر ٹی وی چینل پر فوجی بوٹ لا کر خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ حکومت کے پیچھے کس کی طاقت ہے۔ لندن کی تصویر کے مقابلے میں فوجی بوٹ کی یہ تصویر حقائق کا زیادہ اظہار کر رہی ہے۔ فیصل واوڈا کی حرکتوں پر عمران خان کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنے گھر کی خبر لیں اور سرکاری مسخروں کی حرکتوں پر خوش ہونے کے بجائے یہ سمجھ لیں کہ خود ان کی ساکھ مجروح ہوتی ہے جو شاید کچھ باقی رہ گئی ہو۔