محمد انور
بدعنوانی اور بے قاعدگی کا تسلسل تو ملک کے ایسے تمام ہی اداروں میں جاری ہے جن سے عام لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کرپشن اور بے قاعدگیوں کا سلسلہ ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی جاری و ساری رہنے کی اطلاعات ملا کرتی ہیں۔ جب اس طرح کی اطلاعات پر کام کیا جائے اور نتیجہ یہ نکلے کہ ہر تعلیمی ادارے کا نظام بے ایمانی و بے قاعدگی کی لپٹ میں ہے تو سر چکرا جانا یا کم ازکم سر پیٹنا تو بنتا ہے۔ بے قاعدگی، بدانتظامی اور بدعنوانی کی جس حقیقی کہانی کا یہاں ذکر کیا جائے گا وہ ایک ایسی درس گاہ کی ہے جہاں اسلامی تعلیمات کے ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی سے منسلک شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر کی کہانی ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ کسی دینی تعلیم کی درسگاہ میں کوئی ایسا ڈائریکٹر بن بیٹھے جس کے پاس مطلوبہ ڈگری ہی جعلی ہو اور اس ڈگری کو عدالتی انکوائری کے نتیجے میں جعلی بھی قرار دیا جاچکا ہو مگر متعلقہ شخص کا کچھ نہ بگڑے تو اس کے نظام پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی تو اور کیا ہوگا۔
فی الحال اصل نکتہ پر آتے ہیں۔ جاوید عالم جامعہ کراچی میں قائم شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر کے گریڈ 15 میں آفس اسسٹنٹ کی حیثیت سے گزشتہ 32 سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں مگر 22 اکتوبر 2019 کو سینٹر کی قائم مقام ڈائریکٹر عابدہ پروین نے اپنے دستخط سے انہیں جبری ریٹائر کردیا۔ ان کی ریٹائر منٹ میں ابھی پانچ سال باقی ہیں۔ جاوید عالم کو ’’کمپلسری ریٹائرمنٹ‘‘ کے آفس آرڈر میں یونیورسٹی کے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جبکہ جاوید عالم کا کہنا ہے کہ ہمارے اوپر یونیورسٹی کا اکیڈمک قانون لاگو نہیں ہوتا ہم سول سرونٹ کہلاتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جن قوانین کے تحت قائم مقام ڈائریکٹر نے جاوید عالم کو جبری ریٹائر کیا ہے اس قانون کی خلاف ورزی کی وہ خود مبینہ طور مرتکب ہیں کیونکہ وہ قائم مقام ڈائریکٹر ہیں اور قانون کے تحت کوئی شخص بحیثیت قائم مقام تین ماہ سے زیادہ عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی انہیں دیا جاسکتا ہے۔ لیکن محترمہ عابد پروین مسلسل تین سال سے مذکورہ سینٹر کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں اور اس خلاف ضابطہ تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر اختیارات کا بھی غلط استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں ایکٹنگ ڈائریکٹر کا چارج رکھتے ہوئے کسی بڑے فیصلے پر کارروائی کا اختیار بھی نہیں ہے مگر انہوں نے سینٹر کے سنیئر لوئر گریڈ ملازم جاوید عالم کو اپنے ہی دستخط سے ’’کمپلسری ریٹائرمنٹ‘‘ کا آرڈر جاری کرکے قوانین کا کھلا مذاق اڑایا ہے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر، متحدہ عرب امارت کی فنڈنگ اور وفاقی حکومت کی براہ راست نگرانی میں چلتا ہے۔ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر اور چانسلر کو بھی اس کے ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار نہیں ہے ایسی صورت میں قائم مقام وائس چانسلر کی موجودگی میں سینٹر کی قائم مقام ڈائریکٹر کو کسی بھی طرح کے انتظامی فیصلوں کا اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ اختیارات کے غلط استعمال سے پاکستان اور یو اے ای کے درمیان ہونے والے معاہدے پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ یو اے ای فنڈز سے اسلامک ریسرچ سینٹر میں خلاف قانون تقرر اور کارروائیاں ملک کی بدنامی کا بھی باعث بن سکتی ہیں مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور نیب حکام ان سارے معاملات کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ قارئین کے ذہن میں یہ سوال آ رہا ہوگا کہ آخر ایک پندرہ گریڈ کے اہلکار کو ملازمت سے برطرف کرنے کے لیے اس طرح کی غیر معمولی اور قواعد کے خلاف کارروائی ایک قائم مقام ڈائریکٹر نے کیوں کی؟ اس کا جواب راقم نے جاوید عالم سے لیا تو انہوں نے بتایا کہ سینٹر میں ایک ڈائریکٹر جعلی ڈگری سے تقرر پانے اور ایک ڈائریکٹر کی بیوی کو غیر معمولی اور غیر قانونی طور پر نوازنے کے باعث وہ اور ان کے ساتھی ادارے کی ساکھ بچانے کے لیے عدالت میں چلے گئے تھے جس کی وجہ سے یہ ظلم ان پر کرنے کی کوشش جاری ہے۔ جاوید عالم کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے سرکاری مکان میں آٹھ افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں مگر انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کرپٹ عناصر کے خلاف آواز اٹھانے پر ایسی سزا ملے گی۔ جاوید عالم کا کہنا ہے کہ ’’وزیراعظم عمران خان کو میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تحقیقات کرانے کے ساتھ شیخ زاید اسلامک سینٹر میں گزشتہ 20 سالہ دور میں کیے جانے والے اقدامات اور فنڈز کے استعمال کی انکوائری کا حکم دینا چاہیے تاکہ تمام معاملات کی شفافیت واصح ہوسکے‘‘۔