قیدی کا خواب

261

حقیقی اور مجازی شاعری کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق ہے اتنا
یہ جامے سے باہر ہے وہ پاجامے سے باہر ہے
ہمارے ہاں حکومتیں سول ہوں یا فوجی ہر دو جامے اور پاجامے سے باہر رہتی ہیں۔ یہی حال میڈیا کا بھی ہے۔ دونوں آمنے سامنے آتے ہیں تو ہتھ چھٹ مظاہر سامنے آتے ہیں۔ شادی یا غمی، تقریب کا احساس کیے بغیر دونوں گھتم گھتا ہو جاتے ہیں۔ وزراء کرام میڈیا کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میڈیا وزراء کے لتّے لینے سے نہیں چوکتا۔ دل میں غبار بھرے طرفین آمنے سامنے آتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو مجید امجد نے کہا تھا
کون ہے یہ گستاخ
تاخ تڑاخ
بلّی ماراں کے محلے کی پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں میں رہنے والے غالب کا اقلیم اور تکریم سے معاملہ رہا اس کے باوجود کہہ اٹھے۔۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت۔۔ درد سے بھر نہ آئے کیوں۔۔ حریم اور ترمیم سے واسطہ پڑتا تو نجانے کیا کہتے۔
ایک ریس کورس کا میدان سقوط ڈھاکا کے وقت سجا تھا۔ سقوط کشمیر کے وقت بھی ایک میدان سجنا چاہیے تھا اس سے کہیں بڑا۔ مشرقی پاکستان میں تو فاضل وقت میں ہم نے کچھ مزاحمت بھی کی تھی کشمیر تو ہم نے ایک گولی چلائے بغیر بھارت کے سپرد کردیا۔ جنہیں لڑنا ہو وہ اسٹنگر کاندھے پر رکھ کر بھی امریکا سے جا بھڑتے ہیں۔ جنہیں نہ لڑنا ہو وہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود خوفزدہ ہندو پر ایک گولی فائر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ یہ سکتہ ہے یا سکوت۔ سکتے کا علاج تو ممکن ہے۔ بیوہ کا سکتہ توڑنے کے لیے اس کی گود میں روتا ہوا بچہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پاک فوج کی گود میں کیا ڈالا جائے۔ کشمیر کے موضوع پر اب ایسا سکوت طاری ہے کہ وہ بڑھیا یاد آجاتی ہے سیدنا علی ؓ کے قاتل ابن ملجم سے جس نے کہا تھا ’’اب صبح تری تضحیک کرے گی‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ صبح ہوگی تو تضحیک کرے گی!! یہاں تو شام کی طوالت ہی سے مہلت نہیں۔ خیر لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔
بات تضحیک کی ہورہی ہے تو خجالت کی بھی ہو جائے جو عوام کے حصے میں آتی ہے۔ تضحیک اور خجالت ان کے حصے میں نہیں آتی جو رہبری کی ایکسٹینشن اور ترمیم کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ان کے حصے میں آتی ہے اشیاء صرف جن کا مذاق اڑاتی ہیں۔ جن کا حال ان جواریوں کی مانند ہے جو تھانیدار کے چھاپے میں پکڑے گئے اور تھانے میں زوردار چھتر کھاتے اڈے کے مالک کو گالیاں دے رہے تھے جس نے کہا تھا تھانیدار میرا جاننے والا ہے۔ تھانے دار اور جوئے کے اڈے کا مالک یقینا ایک دوسرے کے شناسا ہیں لیکن اڈے کی حکومت دینے اور رشوت کی ایکسٹینشن لینے کے معاملے میں۔ رہے جواری تو ان کے حصے میں ہار کا نقصان ہے یا چھتر۔
خواجہ آصف نے فرمایا کہ ریاست کے اعلیٰ منصب کو متنازع نہیں ہونا چاہیے۔ عدلیہ اور فوج نے ترمیم کا جو ڈول ڈالا ہے اس کے بعد تو مستقبل قریب، مستقبل بعید، مستقبل گفتنی اور مستقبل ناگفتنی میں ریاست کے اعلیٰ منصب کے متنازع ہونے کا ہر امکان خارج از بحث ہو چکا۔ اکبر الہ آبادی نے فرعون کے بارے میں کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف ویسے تو قوم کے محسن ہیں لیکن نجانے کیوں تاریخ کو ان کا دامن ہی نہیں پورا لباس داغدار نظر آتا ہے۔ وجہ وہ کتاب آئین ہے جسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، کھول کر نہیں دیکھتا لیکن الماری کے اوپر کتابوں کے ڈھیر میں بصد احترام پھینکے رکھتا ہے۔ ان ناموس قدسیہ نے ناموس آئین کو بٹّا یہ لگایا کہ اسے ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ اپنے اقتدار کی توسیع کے لیے منتخب حکومتوں کو گھر بھیج دیا، پھانسی پر لٹکا دیا یا پھر ہائی جیکر قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔ ان میں سے کسی کو جنرل باجوہ کی طرح آئین میں ترمیم کرکے اپنے اقتدار کو توسیع دینے کا خیال نہیں آیا ورنہ یوں بدنام نہ ہوتے۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے بعد بری، بحری اور فضائی فوج کے سربراہ مدت ملامت پوری ہونے کے بعد مزید تین برس عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔ امید ہے مزید تین برس بعد ایک اور ترمیم کا اہتمام کر لیا جائے گا۔ ہمارا خیال ہے ریاست کے اعلیٰ منصب کو ترمیم کے الجھاووں میں ڈالنا مناسب نہیں۔ ایکسٹینشن تا عمر ہونی چاہیے۔ پہلے بادشاہ بھی تو تا عمر حکومت کرتے تھے۔ ایک بار پھر اکبر الہ آبادی کی طرف چلتے ہیں۔
ابتدا کی جناب سید نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یو نی ورسٹی پر ہوئی
قوم کا کام اب تمام ہوا
جناب سید کی جگہ ’’جنرل باجوہ‘‘، کالج کے بجائے ’’توسیع‘‘ اور یونی ورسٹی کو ’’ترمیم‘‘ پڑھیے اشعار حسب حال اور زیادہ با معنی ہو جائیں گے لیکن ایک قباحت ہے وزن اور نظر سے گر جائیں گے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
آسٹریا کے مصور مورٹزفان نے قیدی کا خواب کے نام سے ایک خواب پینٹ کیا ہے۔ سنگی قید خانے میں باہر دھوپ کی طرف کھلتی ایک کھڑکی کی طرف چہرہ کیے، آنکھیں بند کیے لیٹے ایک قیدی کا خواب۔ اس کے تخیل کے آزادی کے پیکر ایک دوسرے کے کاندھوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے پائوں رکھے کھڑکی تک پہنچنے اور کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوششوں میں مصروف۔ کہیں ایک ننھا پیکر ایک دوسری کھڑکی سے کم کم آتی روشنی کو جھانک کر دیکھ رہا ہے۔ کہیں یہ پیکر ایک خوش جمال اپسرا کے روپ میں قید خانے کی ہوائوں میں ہلکورے لے رہا ہے۔ قید خانے سے نجات کب ملے گی۔ زندگی کب اپنی ہوگی۔ حکمران طبقوںکے پائوں میں بندھے ترمیم اور مفاہمت کے دھاگے کب تک عوام کے گلے کی رسی بنے رہیں گے۔ ایسا نہ ہو اس خاموشی میں سانسیں ہی ڈوب جائیں۔ دل ہی رک جائے۔ ضمیر کی تنہائی کب ہجوم کے ہنگاموں پر غالب آئے گی۔ فیض کا ملال کب ختم ہوگا۔۔۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل