ہماری اجتماعی زندگی خاص طور پرقومی معیشت میں ’’اُمُّ الامراض‘‘ یہ ہے کہ ہم اپنی چادر کے مطابق پائوں نہیں پھیلاتے، چادر چھوٹی ہوتی ہے، ہم پائوں زیادہ پھیلادیتے ہیں اور پھر اس کو ڈھانپنے کے لیے سہارے تلاش کرتے ہیں اور یہ سہارا سود پر قرض لینے کا ہے، الغرض قرض انفرادی ہویا قومی، یہ آکاس بیل کی طرح ہوتا ہے۔ آکاس بیل ایک زرد رنگ کے دھاگے کی طرح بیل ہوتی ہے، اس کی جڑ نہیں ہوتی، یہ درخت کے ساتھ چمٹ جاتی ہے اور اس کی شاخوں اور پھول پتوں سے اپنے لیے غذا کشید کرتی ہے، یعنی جونک کی طرح اس کا خون چوس لیتی ہے، اسے امر بیل بھی کہتے ہیں۔ سو ہماری معیشت کی آکاس بیل یا امربیل یا جونک قرضوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جمہوریت کی خرابیوں پر تنقید کی جائے، تو جمہوریت کے طرف دار کہتے ہیں: ’’جمہوریت کی خرابیوں کا مداوا یا علاج مزید جمہوریت ہے‘‘، پس قرض سے چھٹکارے کا علاج بھی مزید قرض میں تلاش کرلیا جاتا ہے اور یوں افراد یا اقوام ایک نہ ختم ہونے والی موذی معاشی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قرض کی بیماری کے سائید افیکٹس بھی ہوتے ہیں کہ انسان ڈھیٹ بن جاتا ہے، قرض ادا کرنے کے وعدے کرتا ہے اور اس پر پورا نہیں اترتا، پھر جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور اس طرح انسان اپنے آپ کو بے آبرو کردیتا ہے، حدیث پاک میں ہے:
(۱) ’’سیدنا عمرو بن شَرِید بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جو قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر بھی ادائی میں ٹال مٹول کرے تو اس کی آبرو حلال ہوجاتی ہے، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔ اس کی شرح میں علی طنافسی نے کہا: یعنی حاکم کے ہاں اس کی شکایت کی جاسکتی ہے اور اُسے قید میں ڈالا جاسکتا ہے جو یقینا عزت کی پامالی کا سبب بنتا ہے۔ (۲) ’’سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: قرض زمین میں اللہ کا جھنڈا ہے، پس جب وہ اپنے کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے (تو اُسے قرض لینے کی عادت میں مبتلا فرماتا ہے) اور پھر وہ جھنڈا اس کی گردن میں رکھ دیا جاتا ہے، (المستدرک علی الصحیحین)‘‘۔
(۳) ’’سیدنا جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ کسی ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جو اپنے اوپر قرض چھوڑ کر فوت ہوا ہو، پس آپ ؐ کے پاس ایک میت لائی گئی، آپ ؐ نے پوچھا: کیا اس پر قرض ہے، صحابہ نے عرض کی: جی ہاں! دو دینار ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو، پھر ابوقتادہ انصاری نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ قرض میں اپنے ذمے لیتا ہوں، راوی بیان کرتے ہیں: پھر رسول اللہ ؐ نے اُن کی نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو کشادگی عطا فرمائی تو آپ فرماتے تھے: میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کے قریب ہوں، سو جو قرض چھوڑ کر مرے، اس کی ادائی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، (ابودائود)‘‘۔ رسول اللہ ؐ کا اُس صحابی کا جنازہ نہ پڑھانے میں ایک حکمت صحابۂ کرام کو اُن کا قرض اپنے ذمے لینے کی ترغیب دینا اور اس امر کی سنگینی کی طرف متوجہ کرنا تھا کہ کسی سے قرض لیا ہو تو اُسے ادا کرنا لازمی ہے، حتیٰ کہ اگر کسی کی وفات ہوجائے اور وہ کچھ ترکہ چھوڑ کر گیا ہو اور اس کے ذمے کسی کا قرض ہے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ تکفین وتدفین کے اخراجات کے بعد سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے۔ پس قرض انفرادی ہو یا قومی، یہ اکرام کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ وجہِ ملامت بنتا ہے، حدیث پاک میں ہے:
(۱) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: مال دار کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، پس جب قرض کا ذمہ کسی صاحبِ حیثیت پر ڈال دیا جائے تو اس پیشکش کو قبول کرلیا جائے، (بخاری)‘‘۔ (۲) ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے (آمد وخرچ میں) میانہ روی اختیار کی، وہ کبھی تنگ دست نہیں ہوگا، (مسند احمد)‘‘۔ (۳) ’’ابو سعید کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: کفر اور قرض سے میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں، ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا آپ قرض کو کفر کے برابر قرار دے رہے ہیں، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ہاں، (نسائی)‘‘۔ شارحینِ حدیث نے دَین کو کفر کے برابر قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے والا جھوٹ پہ جھوٹ بولتا ہے اور یہ ایک منافقانہ علامت ہے۔
(۴) ’’عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں قرض کے غلبے، دشمن کے تسلّط اور دشمنوں کی بدخواہی سے تیری پناہ میں آتا ہوں، (سنن نسائی)‘‘۔ (۵) ’’سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے تو وہاں ابوامامہ انصاری بیٹھے تھے، آپ ؐ نے فرمایا: امامہ! تم کیسے بیٹھے ہو، یہ نماز کا وقت تو نہیں ہے، انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے غم لاحق ہوگئے ہیں، قرضوں نے گھیر لیا ہے، آپ ؐ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے کلمات بتاتا ہوں کہ اگر تم انہیں پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے غم دور فرمادے گا اور تمہارے قرض کی ادائی کے اسباب پیدا فرمادے گا، انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ضرور بتائیے! آپ ؐ نے فرمایا: صبح وشام یہ دعا پڑھو: ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ، وَقَہْرِ الرِّجَال‘‘، ترجمہ: ’’اے اللہ! میں ہر رنج وملال، بے بسی اور سستی، بزدلی اور بخل، قرض کے غلبے اور بندوں کے تسلّط سے تیری پناہ میں آتا ہوں‘‘، امامہ بیان کرتے ہیں: میں یہ دعا پڑھتا رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرا غم دور فرمادیا اور قرض سے نجات کے اسباب بھی پیدا فرمادیے، (سنن ابودائود)‘‘۔
ہمارے ملک میں اکثر بڑے صنعت کار اور کاروباری حضرات بینکوں سے بڑے بڑے قرض لیتے ہیں اور پھر فنی طور پر اپنے آپ کو نادہند قرار دے کر سیاسی اثر ورسوخ یا رشوت کے ذریعے یہ قرض معاف کرادیتے ہیں، قرض معافی کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ کارپوریٹ طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، مثلاً: ایک بڑے صنعت کار کی دس صنعتیں ہیں اور اُن میں سے کسی ایک صنعت کے نام پر وہ قرض لیتا ہے، پھر نادہندہ ہوجاتا ہے اور آخر میں اس صنعت کو ڈیفالٹ قراردے کر بری الذمہ ہوجاتا ہے، کیونکہ پبلک لمیٹڈ کمپنی کا مالی بار یا ڈیفالٹ ہونا اُسی تک محدود رہتا ہے اور اگر اسی صنعت کار کی دسیوں صنعتیں کامیابی سے چل رہی ہیں تو وہ متاثر نہیں ہوتیں۔
آج داخلی اور بیرونی قرضوں کا غیر معمولی دبائو ہماری قومی معیشت پر بوجھ بن چکا ہے اور معیشت کی نیّا ہر وقت بھنور میں رہتی ہے، بہت سے قومی اثاثے پرائیویٹ سیکٹر کو فروخت کیے جاچکے ہیں اور باقی ماندہ اثاثوں کو فروخت کرنے کی تدبیریں ہورہی ہیں، موٹروے تک گروی رکھے جاچکے ہیں۔ سو اب عشروں سے ہمارا کام نئے قرضے لے کر ماضی کے قرضوں کی اقساط اور اُن پر واجب الادا سود کو ادا کرنا ہے، لیکن یہ ترکیب بھی کب تک چلے گی۔ ہماری دانست میں اس مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ ہم اتنے ہی پائوں پھیلائیں جتنی ہماری چادر میں گنجائش ہے، اپنے وسائل کے اندر جینا سیکھیں، خسارے کا بجٹ بنانے کی عادت ترک کریں، کچھ عرصے کے لیے قومی مفاد میں مشکل وقت گزاریں، پھر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے، یقینا ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے، (الانشراح: 5-6)‘‘۔
اسی طرح ٹیکس بھی ذمے داری سے ادا کرنے چاہییں، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت عوام کے اندر اپنے نظام پر اعتماد پیدا کرے اور لوگوں کو یقین آجائے کہ ان کے دیے ہوئے ٹیکسوں میں خیانت نہیں ہوگی اور وہ صرف اور صرف قومی مفاد میں خرچ کیے جائیں گے۔ اس وقت ہمارے قومی قرضوں کا حجم چالیس ہزار ارب بتایا جارہا ہے جو ہمارے جی ڈی پی سے متجاوز ہورہا ہے، یعنی ہم بحیثیت ِ قوم قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں یا قرض ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان سچا ہے کہ قرض انسان کو بے آبرو کردیتا ہے، ہم آئے دن ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کو کوستے رہتے ہیں، کیونکہ ان کا کام ہماری مشکیں کسنا ہے، عوام دشمن شرائط ہم پر مسلط کرنا ہے، لیکن ہمارے لیے کوئی چارۂ کار نہیں ہے، ان کی فرمائشوں کی تکمیل میں ہمیں پارلیمنٹ سے قانون سازی کرنی پڑتی ہے، یہ سارا عمل اگرچہ انتہائی ناخوشگوار ہے، لیکن ناگزیر ہے، حدیث پاک میں ہے:
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص کا نبی ؐ پر قرض تھا، اس نے تقاضا کرنے میں سختی کی تو آپ ؐ کے صحابہ نے اس کے ساتھ سختی برتنے کا ارادہ کیا، آپ ؐ نے فرمایا: حق دار کو بات کرنے کا حق ہوتا ہے، پھر آپ نے صحابہ سے فرمایا: اس کے لیے اس عمر کا اونٹ خرید کر اسے دے دو، صحابہ نے عرض کی: (اس وقت بازار میں) اس سے بہتر عمر ہی کا دستیاب ہے، آپ ؐ نے فرمایا: وہی خریدکر اسے دے دو، کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض اچھے طریقے سے ادا کرے، (مسلم)‘‘۔ ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے تصوّراتی دعوے کرتے ہیں کہ ہم صدر، وزیر اعظم، گورنروں اور دیگر بڑے سرکاری عمّال کے بڑے بڑے محلات کو ختم کردیں گے، ہم انہیں درسگاہوں میں تبدیل کردیں گے، کیونکہ ان محلات کی نگہداشت پر بھی بھاری اخراجات آتے ہیں، لیکن پھر ان تصوراتی دعووں پر پورا اترنا اُن کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ اقتدار کے باہر کی فضا کچھ اور ہوتی ہے اور اندرکا ماحول اور تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ خود کفالت اور اپنے وسائل کے اندر رہے بغیر قومی غیرت وحمیت کو قائم رکھنا نہایت دشوار ہے، یہ مسئلہ موجودہ یا ماضی کے حکمرانوں کو کوسنے سے حل نہیں ہوگا، اس پر قومی اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔