لغت بدل گئی، ہے نہیں اور نہیں ہے ہوگیا

240

کبھی اسکول کالج کے زمانے میں کہیں ایک شعر پڑھا تھا لیکن اس وقت وہ فقط ایک شعر ہی تھا اور اس میں کہی گئی بات تفننِ طبع کے لیے ایک مسکراہٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھی۔ تقریباً 45 سال بعد لگتا ہے کہ وہ شعر کہا تو اس وقت گیا تھا لیکن وہ آج کے زمانے کے لیے تھا گویا شاعر 45 سال کی دوری پر بھی آج کے زمانے کو دیکھ رہا تھا۔ شعر کچھ یوں تھا کہ
مجھ کو تو ہر اک منظر الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
کسی زمانے میں ہوتا یہ تھا کہ ہمارا محکمہ موسمیات تقریباً ساری پیش گوئیاں محض اندازے پر ہی داغ دیا کرتا تھا۔ اگر سردی نے ٹھٹرا دیا تو پیش گوئی کر دی گئی کہ اگلے دن درجہ حرارت مزید گر جائے گا لیکن ہوتا یوں تھا کہ پہن کر تو دو دو سویٹر جاتے لیکن واپسی نہ صرف بنا سویٹر ہوتی بلکہ کھجلی کی وجہ سے سارے جسم کو بھنبوڑتے ہوئے چلے آتے۔ اعلان ہوتا کہ موسم خشک رہنے کا امکان ہے، ٹھیک دوپہر میں وہ جل تھل مچتی کہ بارش کا پانی گھروں اور دکانوں کے اندر تک داخل ہو جاتا۔ درجہ حرارت 48 سے بھی تجاوز کرسکتا ہے کے اعلان کے ساتھ ہی خوشگوار ہوائیں چلنا شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں دنیا سے بہت پیچھے تھا۔ اب زمانہ بہت ایڈوانس ہو گیا ہے اور محکمہ موسمیات کی کئی کئی دن پہلے کی اعلان کردہ پیش گوئیاں بھی درست ثابت ہونے لگی ہیں۔
محکمہ موسمیات کی کارکردگی تو بے شک بہت بہتر ہو گئی ہے لیکن حکمرانوں کی دل و دماغ کے سارے جدید آلات یا تو پرانے اور ناکارہ ہو کر رہ گئے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان سے سچ بولنے اور حالات کے مطابق فیصلے کرنے کی ساری توفیق ہی جیسے سلب کر کے رکھ دی ہے۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے حکمران جو بھی دعوے اور وعدے کرتے ہیں، جس جس منصوبہ بندی کا اعلان کرتے ہیں اور قوم کے مستقبل کے متعلق جو باتیں بھی بیان کرتے ہیں، آنے والا ہر دن ان کے وعدوں، دعوں، منصوبہ بندی اور مستقبل کے متعلق کہی گئی باتوں کے خلاف جارہا ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بے شک زیادہ غلط ہی ثابت ہوا کرتی تھیں لیکن پھر بھی بہت سارے تکے ایسے ہوتے تھے جو تیر بن جایا کرتے تھے۔ اسی طرح ماضی کے کئی حکمران اور ان کے ادوار ایسے ضرور گزرے ہیں کہ حالات ان کے دعوں، وعدوں اور عوام کے سامنے بیان کی گئی باتوں کے برعکس ثابت ہوتے رہے تھے لیکن پھر بھی بے شمار باتیں اور دعوے حقیقت کا روپ بھی دھارتے دکھائی دیے لیکن اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ اردو کی ساری لغت اور انگریزی کی پوری ڈکشنری ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ہے اسی لیے جو بات بالکل تیر کی طرح سیدھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے وہ بھی جلیبی بن کر رہ جاتی ہے لہٰذا ضروری ہوگیا ہے کہ اردو لغت میں درج ہر انکار کو اقرار، ہر ہے کو نہیں اور ہر نہیں کو ہے سے بدل دیا جائے تاکہ وہ معصوم عوام جو دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر دعوے اور وعدے کرنے والے رہبر و رہنما کے پیچھے پیچھے چلنے لگتے ہیں ان کو ہر ’’ہاں، ناں، اقرار اور انکار‘‘ کے اصل معنی و مفاہیم سمجھا اور بتا دیے جائیں تاکہ امیدیں پوری نہ ہونے کی صورت میں ان کے دل و جگر کو زخمی اور پاش پاش ہونے سے بچایا جا سکے۔
سنا ہے سیاست کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا، یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ وہ بے ’’رحم‘‘ ہوتی ہے، یہ بات سمجھ سے بالکل ہی بالا تر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاست واقعی بے ’’رحم‘‘ ہے تو پھر وہ جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، ناانصافی، ظلم، جبر، ستم اور ہر اس چیز کو جو انسانی اقدار، اخلاق، کردار، امن، سکون، اطمینان اور خوش بختی کو غارت کرکے رکھ دیتی ہے، جنم کیسے اور کہاں سے دیتی ہے۔ سیاست صرف پاکستان ہی میں تو نہیں ہوا کرتی، پوری دنیا بغیر سیاست کے چل ہی نہیں سکتی بلکہ دنیا کا کوئی قانون، آئین، دستور، حتیٰ کے اسلام کے ضابطہ حیات میں سے بھی اگر سیاست کو مائنس کر دیا جائے تو دنیا راحت و سکون کا نمونہ بننے کے بجائے غم و اندوہ کا مجموعہ اور دوزخ بن کر رہ جائے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر سیاست کو اندھی اور بے رحم کیوں کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ دنیا کے بے شمار ممالک کے حالات ہمارے ملک کے حالات سے بھی کئی گنا برے اور کٹھن ہوں لیکن وہ ممالک بھی تو ہیں جہاں امن ہے، سکون ہے، اطمینان ہے، انصاف ہے، خوشحالی ہے اور وہاں ہر کام طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق انجام دیا جاتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ جو ممالک جہنم کی مثل بنے ہوئے ہیں وہاں ’’سیاست‘‘ نہیں ہے یا جو ممالک جنت نظیر کہلانے کے مستحق ہیں وہاں سیاست سیاست کا کھیل نہیں کھیلا جاتا۔
اگر دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ہر سلجھا ہوا ذہن یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ سیاست ان ممالک میں بھی ہے جو دوزخ بنے ہوئے ہیں اور سیاست وہاں بھی ہے جو رشک فردوس بریں ہیں، فرق صرف سیاسی مقاصد کو منفی یا مثبت انداز میں اپنانے کا ہے۔
میں نے بہت شروع میں ہی عرض کیا تھا کہ موجودہ دور حکومت نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان ہو یا سرکاری زبان، اس کی لغت ہی کو تبدیل کردیا جائے اور منفی کو مثبت، ہاں کو نہیں، انکار کو اقرار اور یس کو نو کے معنی پہنا دیے جائیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل کے سارے دعوے اور وعدے سامنے رکھے جائیں اور پھر عمل کی میزان میں ان کو تولا جائے تو جھوٹ اور فریب کا ایک حرف بھی سارے دعوں اور وعدوں کے پلڑے کو اوپر لے جانے کے لیے کافی ہے۔ حکمرانوں کا یہی کردار خود حکمرانوں کے لیے ایک ایسا چیلنج بن کر رہ گیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے اور عوام میں اپنا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے حکمرانوں کے پاس جو وقت بچا ہے وہ اب اس کام کے لیے کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ ان کے منہ سے نکلی کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو مکر سے پْر نہ ہو اور عوام کے لیے بہلاوے سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی ہو۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ پاکستان کو کھرب ہا کھرب روپوں کا ریوینیو فراہم کرنے والے اس شہر کو اگر اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بھی فنڈز نہیں دیے جائیں تو کیا یہ ظلم و زیادتی کی بات نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار ذمے داریاں صوبائی حکومت کی بھی ہوتی ہوںگی لیکن جس شہر میں اگر اتحادیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس کی قومی اسمبلی میں 80 فی صد سے زیادہ نمائندگی ہو، مقامی حکومت سو فی صد اتحادی جماعت ہی کی ہو اور مرکزی حکومت بھی حکمران جماعت اور اتحادی جماعت ہی کا ہو، لیکن اس کے باوجود بھی کراچی اٹھارہ ماہ سے صرف وعدوں وعیدوں پر ہی چلایا جارہا ہو تو کیا یہ بات کراچی کے ساتھ دوستی میں شمار کی جائے گی یا سراسر دشمنی کہلائے گی۔

کراچی کی غیر اتحادی قوتیں تو مخالفت کرتی ہی رہی ہیں لیکن اب وہ جماعت جو ہے تو بہت قلیل تعداد میں لیکن اپنے وزن کے اعتبار سے وہ اقتدار کے پلڑے کا توازن بگاڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ پورے اٹھارہ ماہ مرکز کی وعدہ خلافیوں سے بیزار ہو کر فی الحال وزارت سے مستعفی ہو رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اس کا اعتماد بار بار کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے اٹھ گیا ہے۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے نہ صرف ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبات کو جائز قرار دیا ہے بلکہ یقین دلایا ہے کہ حکومت انہیں بہر صورت پورا بھی کرے گی۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ ’’ضد اور اڑ‘‘ کے بعد ہی کیوں توجہ حاصل کرتا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر واقعی یہاں مسائل ایسے ہیں جو فوری توجہ چاہتے تھے تو ان پر اب تک عدم توجہی کیوں اختیار کی گئی وہ بھی ایک ایسے شہر کی جانب سے جو نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ پاکستان کو بہت کچھ دیتا ہے۔ حکومت نے جو وعدے وعید کیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن میں مطالبات کرنے والوں سے اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ کسی بھی ’’ہاں‘‘ کو اس وقت تک ’’ناں‘‘ ہی سمجھیں جب تک وہ واقعی ’’ہاں‘‘ نہ ہو جائے اس لیے کہ اب پاکستان کی قومی زبان کی لغت ہو یا سرکاری زبان کی ڈکشنری، اس میں دیے گئے ہر لفظ کے مطالب و معانی برعکس ہو چکے ہیں اور ہر مثبت مفہوم منفی سمجھا جانے لگا ہے اس لیے صبر کے کڑوے گھونٹ پئیں اور لمبی تان کے سونے میں ہی سکون ہے یا پھر قبر رہ گئی ہے جہاں اطمینان کی نیند آ سکتی ہے۔ یقین نہیں تو وزیر اعظم کے ارشادات ملاحظہ کر لیجیے گا۔