حسنِ اخلاق کامل ایمان کی پہچان ہے، اسلام اور مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہے، جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ اور سبب ہے، اللہ کی رضا وخوشنودی کا جلی عنوان ہے۔ حسنِ اخلاق وہ قیمتی زیور ہے جس سے آراستہ ہونے والے شخص کو آپؐ کا محبوب ہونے کی بشارت سنائی گئی ہے۔ اور روزِ محشر اس کوآپؐ سے قریب ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ یہ وہ بیش بہا وصف ہے جس کی تکمیل کے لیے آپؐ کو مبعوث کیا گیا ہے، اور اس کو کمالِ ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ خوش اخلاق اور خوش اطوار انسان خالق ومخلوق ہر دو کی نگاہوں میں محبوب اور منظورِ نظر ہوتا ہے۔ معاشرے کے افراد کے مابین اس کو مرجعیتِ عام اور مقتدایانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور دوست ودشمن ہر ایک کے لیے وہ مرکزِ محبت وعقیدت ہوتا ہے۔
اخلاقِ حسنہ اسلام کا وہ گلشنِ سدا بہار ہے جس کے اجزائے ترکیبی میں عفو و درگزر، حلم وبردباری، ایثار وہمدردی، عفت وپاکیزگی، جود وسخا، انصاف وعدل پروری اور نرم خوئی ونرم مزاجی کے گلہائے رنگارنگ ہیں۔ ان کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے، اور دل ودماغ کو فرحت وتازگی بخشتی ہے، اور ایمان ویقین کے خزاں رسیدہ پودوں کو ذوقِ نمو عطا کرتی ہے۔ تحمل وبردباری اور نرم خوئی ونرم مزاجی گلشنِ اخلاق کا وہ گلِ سرسبز ہے جس کی مہک اور جس کا روح پرور اثر اپنے اندر مقناطیسی قوت رکھتا ہے، اور دوسروں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ وہ تیرِ نیم کش ہے جس سے کشورِ دل زیر وزبر ہوجاتے ہیں، اور انسانی افکار وخیالات کی رو تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ وہ جاذب نظر اور خوش نما ہتھیار ہے جس سے بغاوت پسند اور سرکش لوگ قابو میں آجاتے ہیں، اور اپنی زندگی میں صالح اور خوش گوار انقلاب لے آتے ہیں۔
سیرتِ رسول اورنرم خوئی
چونکہ نرم خوئی اور نرم مزاجی بہت ہی اعلیٰ اور قیمتی وصف ہے، بے شمار فوائد ومنافع کا حامل ہے؛ اسی لیے آپؐ جہاں بہت سے اوصافِ حمیدہ کی مجسم تصویر تھے، وہیں نرم خوئی اور نرم مزاجی بھی آپؐ کا خاص وصف تھا، خود قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؐ کے اس قیمتی وصف کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے پیغمبر! آپ اللہ کی مہربانی سے ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگرآپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے، لہٰذا اْنہیں معاف کردیجیے اور ان کے لیے استغفارکیجیے‘‘۔
(آل عمران: 150)
صحابہ کرامؓ جن کی آنکھیں آپؐ کی فیضِ صحبت سے منور ہوئیں، اور جنہوں نے آپؐ کی زندگی کو بالکل قریب سے دیکھا، ان کا آپؐ کے بارے میں بیان ہے: آپؐ ہشاش بشاش، خوش اخلاق اور نرم خو تھے، سخت دل تھے نہ تندخو، شور وشغب اور فحش گوئی سے دور تھے، اور عیب جوئی اور بخل سے مجتنب رہتے تھے۔ (الشمائل المحمدی للترمذی)
نرم خوئی اور نرم مزاجی کا یہ وصف آپؐ کے اخلاقی پیکر کا ایسا جزو لاینفک بن گیا تھا کہ ایسے حالات جن میں انسان سخت اور درشت لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وقار وسنجیدگی کا دامن اس سے چھوٹ جاتا ہے، آپؐ نے عفو ودرگزر اور نرمی کا ثبوت دیا ہے۔
ایک یہودی کے ساتھ آپؐ کا حسنِ برتاؤ
چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک یہودی کی چند اشرفیاں نبی کریمؐ پر قرض تھیں، یہودی نے آپؐ سے قرضہ کا مطالبہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ابھی میرے پاس کچھ نہیں ہے جس سے میں تمہارا قرضہ ادا کرسکوں، یہودی نے اصرار کیا، اور کہا کہ جب تک آپ میرا قرضہ ادا نہیں کرتے، میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہوں گا، آپؐ اس یہودی کے پاس بیٹھ گئے، اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں، جب صحابہ کرامؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو وہ یہودی کے پاس آئے، اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے، آپؐ کو اس کا علم ہوا تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو منع کیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس یہودی نے توآپ کو قیدی بنالیا ہے، آپؐ نے فرمایا: میرے رب نے مجھے معاہد اور غیرمعاہد پر ظلم کرنے سے روکا ہے، جب وہ دن گزرگیا تو اس یہودی نے اسلام قبول کرلیا، اور اس نے کہا: میں اپنا آدھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، میں نے یہ حرکت اس لیے کی تھی کہ میں نے توریت میں آپؐ کے متعلق پڑھا ہے: محمد بن عبداللہ جن کی جائے پیدائش مکہ ہے، اور جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئیں گے، نہ وہ سخت دل ہوں گے نہ تندخو، نہ چیخ کر بات کریں گے، ان کی زبان فحش گوئی اور بے ہودہ گوئی سے آلودہ نہیں ہوگی، میں نے اب تمام صفات کا امتحان کرکے آپ کو صحیح پایا؛ اس لیے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ میرا آدھا مال ہے، آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم)