افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اسلام… ایک دائمی شریعت

190

یہ شریعت ایک دائمی شریعت بھی ہے۔ اِس کے قوانین کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ اْس فطرت کے اْصول پر مبنی ہیں جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے۔
جب فطرت ہر زمانے اور ہر حال میں قائم ہے تو وہ قوانین بھی ہر زمانے اور ہر حال میں قائم رہنے چاہییں جو اْس پر مبنی ہوں۔
(دینیات)
نماز کا مسنون طریقہ
اہلِ حدیث، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی حضرات جن جن طریقوں سے نماز پڑھتے ہیں وہ سب طریقے نبیؐ سے ثابت ہیں اور ہر ایک نے معتبر روایات ہی سے اْن کو لیا ہے۔ اسی بِنا پر اِن میں سے کسی گروہ کے اکابر علما نے یہ نہیں کہا کہ اْن کے طریقے کے سوا جو شخص کسی دوسرے طریقے پر نماز پڑھتا ہے اْس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ صرف بے علم لوگوں کا ہی کام ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے طریقے کے سِوا دوسرے طریقے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اسے ملامت کرتے ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ نبیؐ نے مختلف اوقات میں ان سب طریقوں سے نماز پڑھی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو صرف اِس اَمر میں کہ آپؐ عمومًا کس طریقے پر عمل فرماتے تھے۔ جس گروہ کے نزدیک جو طریقہ آپؐ کا معمول بہ طریقہ ثابت ہْوا ہے اْس نے وہی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔
میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں مگر اہلِ حدیث، شافعی، مالکی، حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں۔(رسائل و مسائل دوم)
بیت المال کے امانت ہونے کا تصوّر
بیت المال کو وہ ( خلفائے راشدینؓ) خدا اور خَلق کی امانت سمجھتے تھے۔ اس میں قانون کے خلاف کچھ آنے اور اْس میں سے قانون کے خلاف کچھ خرچ ہونے کو وہ جائز نہ رکھتے تھے۔ فرمانرواؤں کی ذاتی اغراض کے لیے اس کا استعمال اْن کے نزدیک حرام تھا۔
سیدنا عمرؓ نے ایک مرتبہ سلمان فارسیؓ سے پوچھا کہ ’’میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ ؟‘‘ انہوں نے بِلاتامل جواب دیا کہ ’’اگر آپ مسلمانوں کی زمین سے ایک درہم بھی حق کے خلاف وصول کریں اور اس کو حق کے خلاف خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں، نہ کہ خلیفہ‘‘۔
ایک اور موقع پر عمرؓ نے اپنی مجلس میں کہا کہ ’’خدا کی قسم! میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟ اگر میں بادشاہ ہوگیا ہوں تو یہ بڑی سخت بات ھے‘‘۔ اِس پر ایک صاحب نے کہا ’’اے امیرالمومنین اِن دونوں میں بڑا فرق ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’وہ کیا ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’خلیفہ کچھ نہیں لیتا مگر حق کے مطابق اور کچھ خرچ نہیں کرتا مگر حق کے مطابق۔ آپ خدا کے فضل سے ایسے ہی ہیں۔ رہا بادشاہ، تو وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔ ایک سے بے جا وصول کرتا ہے اور دوسرے کو بے جا عطا کر دیتا ہے‘‘۔ ( طبقات ابنِ سعد ) (خلافت و ملوکیت )