حفصہ بنت سیرینؒ
ام ہذیل، فقہیہ انصاریہ ہیں، ایاس بن معاویہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: میں نے حفصہ بنت سیرینؒ سے زیادہ عالمہ فاضلہ خاتون نہیں دیکھی، انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا، اس کے بعد ستر سال حیات رہیں۔ ان کے تذکرے میں حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ نے فرمایا: حفصہ سے زیادہ فضیلت والی کوئی خاتون نہیں۔
مہدی بن میمون کہتے ہیں: حفصہ بنت سیرینؒ تیس سال تک اپنے مصلیٰ، یعنی گھر کی مسجد، سے باہر نہیں نکلیں، سوائے کسی (رشتے دار) سے ملاقات اور قضائے حاجت وضرورت کے، ان کی وفات سن 100ھ کے بعد ہوئی۔
سیدہ معاذہؒ
بنت عبداللہ، سیدہ، عالمہ، ام الصہبا، بصریۃ، عابدہ، حضرت صلہ بن اشیم کی اہلیہ ہیں۔
یہ ساری رات عبادت گزارتیں اور کہتیں کہ مجھے اس آنکھ پر تعجب ہے جو سو جاتی ہے، مجھے پتا چلا کہ زیادہ سونا ظلمت قبر کا باعث ہے۔
شوہر اور بیٹے کی شہادت
جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے شوہر ’’صلہ‘‘ او ران کے بیٹے جنگ میں شہید ہو چکے ہیں تو ان کی تعزیت کے لیے ان کے یہاں عورتیں اکٹھی ہوئیں تو انہوں نے فرمایا: تمہیں مبارک باد ہو اگر تم مجھے مبارک باد دینے کے لیے آئی ہو اور اگر تمہارا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے تو تم یہیں سے لوٹ جاؤ۔
اکثر وبیشتر کہا کرتی تھیں: بخدا! میری دنیا میں بقا کی خواہش صرف اور صرف اس لیے ہے کہ میں کچھ ایسے وسائل اور ذرائع اختیار کروں جو میرے رب کی قربت کا ذریعہ بن سکیں، مجھے اللہ سے امید ہے کہ اللہ عزوجل مجھے، ابوالشعثاء اور ان کے لڑکے کو یکجا کردے۔ ان کی وفات سن 83ھ میں ہوئی۔
رابعہ عدویہؒ
سیدہ رابعہ بصریہؒ، زاہدہ، عابدہ، خاشعہ، ام عمرو، رابعہ بنت اسماعیل ہیں۔
خالد بن خِداش کہتے ہیں: رابعہ بصریہؒ نے سنا کہ صالح مری اس دنیا کا اپنے قصوں میں بکثرت ذکر کرتے ہیں، تو انہیں مخاطب کرکے فرمایا: صالح! جو جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا بکثرت ذکرکرتا ہے۔
بشر بن صالح عتکی سے مروی ہے کہ: کچھ لوگوں نے رابعہؒ سے ( اْن کی مجلس میں شرکت کی) اجازت چاہی، اور ان کے ساتھ سفیان ثوریؒ بھی تھے، ان لوگوں نے ان کے یہاں قیامت کا تذکرہ کیا، پھر کچھ دنیا کا بھی ذکر ہوا، جب یہ جانے لگے تو رابعہؒ نے اپنی خادمہ سے کہا: یہ بزرگ اور ان کے ساتھی (دوبارہ) آئیں تو تم انہیں میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا، کیوں کہ میں نے انہیں دنیا کی محبت میں گرفتار پایا ہے۔
عْبیس بن میمون عطارؒ کہتے ہیں کہ مجھ سے رابعہ عدویہ کی خادمہ عبدہ بنت ابی شوال نے بیان کیا کہ رابعہ رات بھر نماز پڑھتیں، طلوع فجر کے وقت تھوڑی دیر سو جاتیں، پھر فجر کے لیے اٹھ جاتیں، وہ (اپنے نفس کو مخاطب کرکے) یہ کہتی تھیں: اے نفس! تو کتنا سوئے گا اور کتنا کھڑا رہے گا! تجھے بعد میں ایسی نیند سونا ہے کہ پھر روز قیامت ہی اٹھنا ہے۔
کہو: غم کتنا کم ہے!
جعفر بن سلیمان کہتے ہیں: میں امام سفیان ثوریؒ کے ساتھ رابعہ عدویہؒ کے یہاں گیا، سفیان کہنے لگے: ’’واحزناہ‘‘ ہائے غم! تو سیدہ رابعہؒ نے فرمایا: مت کہو، یوں کہو، کتنا کم غم ہے۔ ان کی وفات سن180ھ میں ہوئی۔
زبیدہؒ
ان کا نام ست المحجبۃ أمۃ العزیز ہے، ان کی کنیت ام جعفر بنت جعفر بن ابو جعفر منصور ہے، یہ امین محمد بن رشید کی ماں ہیں، خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ عباسیوں نے ان جیسا خلیفہ نہیں جنا۔ یہ نہایت جاہ وحشم والی خاتون تھیں، حج کے سلسلے میں ان کے بے شمار کارنامے ہیں، ان کے جدامجد نے ان کا لقب زبیدہ رکھا، ان کے شاہی محل میں تقریباً سو باندیاں تھیں اور سب کی سب قرآن پاک کی حافظہ تھیں، سن 216ھ میں وفات پائیں۔
عباسی دور کے خلیفہ ہارون رشید کی بیوی سیدہ زبیدہ نے خواب میں دیکھا کہ اس کی چھاتیوں سے رعایا دودھ پی رہی ہے، اس بھیانک خواب کا تذکرہ اس نے اپنے شوہر ہارون رشید سے کیا، ہارون رشید بھی اس خواب سے متفکر ہوا اور علما سے اس کی تعبیر چاہی تو علما نے بتلایا کہ یہ مبارک خواب ہے، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ عزوجل تمہاری بیوی سے کوئی اہم خدمت لیں گے، جس سے رعایا کو فائدہ پہنچے گا، چنانچہ ان دنوں مکہ مکرمہ میں حاجیوں کے لیے پانی کی تکلیف کی اطلاع ملی کہ پانی کی کمی سے حجاج فوت ہو رہے ہیں تو اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے زبیدہ نے حج کا ارادہ کیا اور وہاں جائزہ لینے کے بعد اپنے مہر اور خلیفہ کے زر کثیر سے 36 کلومیٹر طویل نہر وادی نعمان طائف روڈ سے 791 عیسوی مطابق174ھ میں بنوائی، جس سے 1200 سال تک استفادہ کیا جاتا رہا، جب یہ نہر تیار ہوئی تو محاسب نے حساب پیش کیا۔ خلیفہ وقت نے ان کاغذات کو یہ کہتے ہوئے دریائے دجلہ میں ڈال دیا کہ ہم اس کے حساب کو یوم الحساب پر موقوف رکھتے ہیں اور اگر کسی کے ذمے ہمارا کچھ باقی ہو تو ہم اس کو معاف کر دیتے ہیں۔
میدان عرفات میں جبلِ رحمت کے دامن میں نہر زبیدہ کے ٹوٹے پھوٹے نشانات اب بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔