ایک سوال ذہن میں اکثر اْٹھتا رہتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ’’حجر اسود‘‘ پہلے یمن میں لوگوں کی تحویل میں تھا، تو کیوں تھا؟ اور کس طرح ان تک پہنچا اور کہاں سے آیا؟ اور اس پتھر کو کس ذریعے سے یمن پہنچایا تھا؟ اس کے بعد کن وجوہات کی بنا پر یہ پتھر یمن سے مکہ پہنچا اور کیا ذریعہ تھا؟ پھر مکہ معظمہ میں کس وجہ سے اس پتھر کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی؟ واضح رہے کہ حجر اسود کے اندر ایسی زبردست قدرتی مقناطیسی کشش موجود ہے کہ ہر ملک وقوم اور رنگ ونسل کے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، یہ پْرشکوہ پتھر جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدمؑ اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشے میں نصب فرمایا تھا۔ طوفان نوح میں آدمؑ کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اْٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکم جبل ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیلؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہؑ کی خدمتِ عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اْسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔(تفسیر قرطبی)
317ھ میں جب مکہ مکرمہ قرامطہ کے دستِ تصرف میں آیا، تو ابوطاہر سلیمان بن الحسن نے جو قرامطہ کا سردار تھا، حرم محترم میں خون کی ہولی کھیلی۔ 8 ذو الحجہ 317ھ کو اس قدر قتل عام کیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہِ زمزم بھر گیا، شہر اور مضافات کے تیس ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلادیا، جن میں سترہ سو حاجی اور سات سو طواف کرنے والے بھی شہید ہوگئے، اس نے یہ سارا کھیل میزابِ رحمت یعنی کعبہ شریف کا پرنالہ جو سونے کا تھا، اْکھاڑنے، مقام ابراہیم اور حجر اسود چوری کرنے کی نامشکور جسارت کے لیے کھیلا تھا۔ دو آدمی اس مذموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے، مگر آن واحد میں سر کے بل زمین پر گرکر واصل جہنم ہوگئے، مقامِ ابراہیم تو اس کے دست تصرف سے مامون رہا، کیونکہ خدام حرم نے اْسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیا تھا، مگر 14 ذو الحجہ 317ھ بروز اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابوطاہر کے حکم سے حجر اسود کو کدال سے اْکھاڑ لیا، اس پر کئی ضربیں لگائیں جس سے کچھ ریزے ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے اور اس کی جگہ خالی رہ گئی، تقریباً بائیس سال کا طویل زمانہ گزرجانے کے بعد بحرین کے شہر ’’ہجر‘‘ سے بروز بدھ 10 ذو الحجہ 339ھ کو یہ مبارک پتھر واپس ہوا، واپسی بھی معجزنما تھی، قرامطیوں سے باربار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذرِ لنگ پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیا ہے، ان میں سے اسے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں، اگر تمہارے پاس اس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کرلو، چنانچہ علمائے کرام سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ان سب پتھروںکو آگ میں ڈالا جائے، جو پتھر آگ میں پگھل یا پھٹ جائیں وہ حجر اسود نہیں، حجر اسود کو آگ متاثر نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منواکر اْسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنادیا گیا۔
حجر اسود کو بوسہ دینے کی اہمیت یہ ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، جس مسلمان کو رسول پاکؐ کی بیعت کا شرف نصیب نہیں ہوا، لیکن اس نے حجراسود کا بوسہ لے لیا تو اب اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے بیعت کا اعزاز حاصل کرلیا‘‘۔ (جامع صغیر)
عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: حجر اسود کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوںگی جن سے وہ دیکھ سکے گا اور زبان ہوگی جس سے بول سکے گا اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جنہوں نے اس کو بوسہ دیا تھا۔ (ابن ماجہ)
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ حجر اسود کے پاس تشریف لائے تو اپنے مبارک ہونٹوں سے اس کا طویل بوسہ لیا اور زار وقطار رو رہے تھے، جب فارغ ہوکر دیکھا تو عمر فاروقؓ کو بھی گریہ کناں پایا تو آپ اس طرح گویا ہوئے: ’’عمر! یہی جگہ ہے جہاں آنسوؤں کی ندیاں بہائی جاتی ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ)