آئی جی سندھ کی تبدیلی کا مسئلہ

241

اب تو ہر افسر کا سیاسی رہنما کے سامنے سر تسلیم خم رہتا ہے ۔ جو سرتابی کی جراٗت کرے ، اس کا حشر نشر کردیا جاتا ہے ۔ ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی اسی روایت پر عمل جاری ہے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو سر تسلیم خم نہ کرنے کی پاداش میں صوبہ بدر کیا گیا ۔ اب پھر سے یہی صورتحال درپیش ہے کہ موجودہ آئی جی کلیم امام کی صورت وزیر اعلیٰ سندھ کو پسند نہیں آرہی ہے ۔ انہیں ہٹانے کے لیے صوبائی کابینہ میں جو وجوہات پیش کی گئی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ سندھ میں اسٹریٹ کرائم دوبارہ سے بڑھ گئے ہیں ، لڑکیاں اغوا ہورہی ہیں ۔ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ بشمول کراچی ، پورے صوبے میں اسٹریٹ کرائم کرنے والوں نے دوبارہ سے سر اٹھالیا ہے مگر اس جرم پر پہلے تو کسی آئی جی سندھ کو ہٹانے کی مہم نہیں چلائی گئی ۔پولیس کے سابق سربراہ غلام حیدر جمالی پر پولیس کے لیے بکتر بند گاڑیوں کی خریداری میں بھاری کرپشن کے الزام میں مقدمہ زیر سماعت ہے مگر انہیں ہٹانے کے لیے سندھ حکومت نے کوئی مہم نہیں چلائی بلکہ انہیں بچانے کی ضرور سعی کی گئی ۔ اصل وجہ وہی معلوم ہوتی ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ سندھ حکومت آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدواروں کو فتحیاب کروانے کے لیے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا ارادہ رکھتی ہے جس میں کلیم امام سد راہ ثابت ہوسکتے تھے ۔ صوبہ سندھ کرپشن میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں پر کرپشن کے ڈانڈے براہ راست وزرا سے ہوتے ہوئے ایوان وزیر اعلیٰ اور بلاول ہاؤس سے جاملتے ہیں ۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور پر لاڑکانہ کی ترقی کے لیے دیے گئے 90 ارب روپے کے فنڈز کی خورد برد کا مقدمہ ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ اس پس منظر میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پولیس کو دیے گئے اربوں روپے کے فنڈز کی کرپشن میں بھی کلیم امام رکاوٹ تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ سندھ حکومت کے سیاہ کارناموں میں ایک اور اضافہ ہے ۔ گزشتہ چالیس برسوں میں پیپلز پارٹی ہی سندھ کی اکثر و بیشتر حکمراں رہی ہے ۔ یوں سندھ کو موئنجودڑو بنانے کا سہرا بھی پیپلزپارٹی ہی کے سر بندھتا ہے ۔ اصولی طور پر وزیر اعلیٰ سندھ ہی کو صوبے میں ہونے والے جرائم ، ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے اور بھاری کرپشن پر مستعفی ہوجانا چاہیے ۔ اس کے بجائے ان کی حکومت ہر اس افسر کو سائیڈ لائن کردیتی ہے جس کے بارے میں ذرہ برابر بھی شائبہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی کرپشن کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوسکتا ہے ۔ آئی جی کی تعیناتی چونکہ وفاقی حکومت کا اختیار ہے اس لیے یہ معاملہ سامنے آگیا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ آئی جی کو ہٹانے کے لیے وزیراعظم کی منظوری حاصل کرلی گئی ہے۔ حکومت سندھ نے آئی جی کے لیے جو تین نام دیے ہیں ان میں سے ایک غلام قادر تھیبو سندھ حکومت کے پسندیدہ ہیں لیکن ان کی مدت ملازمت صرف 7 ماہ رہ گئی ہے۔