نیب کے لیے عدالت عظمیٰ کی ہدایات

252

عمرانی حکومت عجیب و غریب بدحواسی کا شکار ہے ۔ پہلے عجلت میں بذریعہ آرڈیننس قانون سازی کی جاتی ہے ۔ بعدازاں پتا چلتا ہے کہ سب کچھ غلط ہوگیا اور پھر اس کی درستی کے لیے نئے سرے سے مشق شروع کی جاتی ہے ۔ہر مرتبہ کیے کرائے کو درست کرنے کے لیے عدلیہ کی مدد حاصل کی جاتی ہے ۔ عمران خان نیازی نے انتہائی عجلت میں نیب آرڈیننس جاری کیا ۔ اس آرڈیننس میں دوسری حد پر جاکر نیب ہی کوبے دست و پا کردیا گیا ۔ اس سے قبل نیب ایک شتر بے مہار قسم کا ادارہ تھا جو جسے چاہے اور جب چاہے پابند سلاسل کردے ۔ کسی بھی شخص کو ملزم بنانے کے لیے ضروری نہیں تھا کہ نیب کے پاس اس فرد کے خلاف ثبوت بھی موجود ہوں ۔ حراست میں لینے کے بعد ثبوت جمع کرنے کا کام شروع کیا جاتاتھا ۔ اس کام میں کئی برس بھی لگ جاتے تھے اور یوں ایک شخص بلا کسی فرد جرم کے برسوں نیب کے جیل خانے میں پڑا سڑتا رہتا تھا ۔ ایسے کئی گرفتار شدگان نیب کی حراست میں ہی جان سے چلے گئے ۔ ایسے میں یہ انتہائی ضروری تھا کہ نیب کو کسی قاعدے قانون کا پابند کیا جائے کہ پہلے وہ کسی بھی مشکوک فرد کے خلاف شواہد اور ثبوت جمع کرے اور پھر گرفتاری عمل میں لائے ۔ کسی بھی گرفتار شخص کو نیب کی حراست میں رکھنے کے بجائے فوری طور پر عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت ہونی چاہیے تھی جہاں ملزم پر فرد جرم عاید کرکے اسے قرار واقعی سزا دی جاسکے ۔ اگر کسی زیر حراست فرد پر نیب جرم ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر اس افسر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے ۔ عمرانی حکومت نے نیب کا قبلہ تو درست کرنے کی کوئی کاوش نہیں کی مگر نیب ہی کوعملی طور پر ختم کردیا ۔ آرڈیننس کے ذریعے ہر خواہش کو قانون بنانے کی بیماری عمران خان نیازی میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ بھی واضح الفاظ میں سرزنش کرچکی ہے کہ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے آرڈیننس کے ذریعے ہی قانون سازی کرنی ہے تو پھر پارلیمنٹ کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ مذکورہ سرزنش کے باوجود عمرانی حکومت کی یہی مشق جاری ہے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قانون سازی کی ہدایت کی تھی ۔ عمران خان نیازی اور ان کی قانونی ٹیم نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع اس بھونڈے انداز میں کی تھی کہ اتنا اہم عہدہ بھی مذاق بن کر رہ گیا تھا ۔ عمران خان نیازی کو اس امر کا اب احساس کرلینا چاہیے کہ وہ محض ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر نہیںبلکہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ۔ انہیں اپنے منصب کا لحاظ رکھنا چاہیے ۔ پارلیمان میں جب کسی قانون پر بحث ہوتی ہے تو اس میں اس کے ہر پہلو پر غور ہوتا ہے اور یوں اس طرح کی حماقتوں سے بچت ہوجاتی ہے ۔ اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے ۔ ملک میں بڑھتی بے روزگاری نے عوام میں شدید بے چینی پیدا کردی ہے ۔ اس پر مزید مہنگائی کا پہاڑ عوام پر گرادیا گیا ہے ۔ آٹے کی قیمت میں 20 روپے فی کلو کا اضافہ معمولی بات نہیں ہے ۔ بجلی کمپنیوں کو اپنا نظام درست کرنے کی ہدایت دینے کے بجائے ان کی چوربازاری کی سزا بھی عوام ہی کودی جارہی ہے ۔ ٹیکس ادا کرنے والے بڑے ادارے دھڑلے سے نہ صرف اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کررہے بلکہ سرکار کے نام پر وصول کیا گیا سیکڑوں ارب روپے کا ٹیکس بھی ڈکار جاتے ہیں ۔صنعت کار شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کو بجلی کے جو نرخ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے بجائے بجلی کی قیمت مزید بڑھا دی گئی۔ یہ اور اس جیسے ہی درجنوں اہم نکات پر بات کرنے اور ان کا حل نکالنے کے بجائے عمرانی کابینہ محض نواز شریف کی چائے پیتی تصویر پر ہی گفتگو میں مصروف ہے ۔ اس سے عمران خان نیازی کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن جیسا اہم ادارہ نہ صرف نامکمل ہے بلکہ اس کا سربراہ بھی موجود نہیں ہے مگر وزیر اعظم عمران خان نیازی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ نیب کی کارکردگی کا اندازہ اس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سوشل میڈیا پر موجود وڈیو سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ ایک سائلہ سے نا مناسب گفتگوفرمارہے تھے ۔مذکورہ وڈیو کے بعد یہ سوال اہم ترین تھا کہ کیا ایسے کردار کے حامل شخص کو نیب جیسے اہم ادارے کا سربراہ رہنا چاہیے ؟ کوئی مہذب ملک ہوتا تو جاوید اقبال فوری طور برطرف کردیے جاتے اور اس کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا عمل شروع کیا جاتا مگر عمران خان نیازی نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم کو اب بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسمبلی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا فورم نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی اہم ادارہ ہے جس کا دوسرا نام ہی مقننہ ہے ۔ بہتر ہوگا کہ مقننہ سے قانون سازی ہی کا کام لیا جائے تو وہ عدلیہ سمیت ہر جگہ سبکی کا سامنا کرنے سے بچ جائیں گے ۔