دو قومی نظریہ

273

ہمارا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ ہم نے دو قومی نظریہ زندہ رکھا ہوا ہے۔ جمہوری تماشا ہو یا آمریت حکمران بصد خلوص اس اہتمام میں مصروف ہیں کہ دوقومی نظریے پر آنچ نہ آئے۔ ملک میں دو قومیں بستی ر ہیں۔ ملک دو قوموں میں تقسیم رہے۔ حکمران اشرافیہ اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام۔
میگنا کارٹا میں برطانیہ کے امراء نے بادشاہ سے یہ بات منوائی تھی کہ وہ اپنے اقتدار میں طبقہ امراء کو بھی شامل کرے گا۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں بھی خواہ وہ جمہوریت ہو یا آمریت کم نگاہ، اور اخلاقی دیوالیے کے شکار طبقہ امراء کی شرکت لازم ہے۔ جمہوریت کے باب میں ہماری وارفتگی کا حال یہ ہے کہ۔۔
تم تھی ہی نہیں۔۔۔ ہم تھے ہی نہیں
تم ہو ہی نہیں۔۔۔ ہم ہیں ہی نہیں
پاکستان میں جمہوریت حکمران طبقے کے لوٹ مار کرنے، قومی دولت سمیٹنے، باہر بھیجنے، بیرون ملک کاروبار کرنے اور جائداد بنانے کا نام ہے۔ عوام کا کام یہ ہے کہ اس ملک کے حاکموں کے لیے برباد ہوتے رہیں، بے کل ہوتے رہیں۔
اس نے پھولوں پہ مرے نام کا آرام کیا
میں نے کانٹوں پہ کہیں رات گزاری اس کی
جن دنوں نوازشریف وزیراعظم اور شہباز شریف خادم اعلیٰ تھے، ان کی سیکورٹی پر براہ راست اور بلاواسطہ دس ہزار سے زیادہ سرکاری ملازم ڈیوٹی دیتے تھے جنہیں قومی خزانے سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان کے ٹی اے، ڈی اے، بجلی کے بل، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروںکے اخراجات، ٹی بریک، برنچ، کھابے، عرب بادشاہوں کے محلوں سے بھی زیادہ قیمتی کرسیاں، صوفے، باتھ رومز میں لگے غیر ملکی سامان، سونے کے شاور، خوشبوئیں، شیمپو، اسکرب اور دوسرے سامان تعیشات الگ۔ دوسری طرف یہ حال تھاکہ ملک کی نصف آبادی کو خوراک کا تحفظ حاصل نہیں تھا۔ انہیں اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ آج کھانا کھایا ہے تو کل کچھ کھانے کو موجود ہوگا یا نہیں۔
آج صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اشیاء صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ روز مرہ استعمال کی تمام اشیا غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ نت نئے ٹیکس لگانے اور قیمتوں میں اضافہ کرنے کا نام تبدیلی ہے۔ گزشتہ حکومت میں 45فی صد عوام غربت کے بوجھ تلے پسے ہوئے تھے اب یہ اوسط 70فی صد ہوگئی ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے بیس فی صد غریب ترین لوگوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا اپنی زندگی میں خوشحالی دیکھنے کا چانس محض 1.9 فی صد ہے، یعنی کوئی چانس نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ کئی دن پہلے ایک غریب مزدور نے محض اس لیے خود کشی کرلی کہ وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے پرانے گرم کپڑوں کا بندو بست نہ کرسکا۔ یہ دو طبقات دراصل دو ایسی قومیں ہیں جن کا ایک دوسرے کے مرنے جینے، خوشی غم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلق ہے تو بس اتنا کہ حکمرانوں کی دولت میں بے بہا اضافہ عوام کی غربت اور ذلت کے جاری رہے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، جس کی آبادی بہت سے ممالک سے بھی زیادہ ہے، اُبلتے گٹروں، ٹوٹی سڑکوں اور گندگی کے ڈھیروں بوجھ تلے دبتا جارہا ہے وہاںکئی دنوں سے شہر میں جماعت اسلامی کی طرف سے لگے بینر یہ خبر دے رہے ہیں کہ اہل کراچی کے لیے بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ بجلی کے یونٹ جس حساب کتاب سے چارج کیے جارہے ہیں وہ ایک الگ فسانہ ہے۔ سو یونٹ ہیں تو یہ قیمت، دوسو یونٹ ہیں تو یہ قیمت، تین سو ہیں تو یہ اور پانچ سو یونٹ ہیں تو یہ۔ اوور بلنگ کی بے حدو حساب زیادتیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے بعد مختلف ٹیکسوں کا نمبر آتا ہے۔ نجانے کتنی طرح کے ٹیکس بجلی کے کھاتے میں وصول کیے جاتے ہیں۔ یوں ہزار کا بل تین ہزار کا ہوجاتا ہے۔ اس پر بھی حکومت کو صبر نہیں۔ ایک غریب مزدور کو ایک یونٹ کی معافی نہیں جب کہ اسمبلیوں کے اراکین، وزیر، وزراء، جرنیلوں کرنیلوں، ججوں اور نجانے طبقہ امراء میں شامل کس کس کو بجلی کی مد میں کتنی چھوٹ دی جارہی ہے کچھ پتا نہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اس اندھا دھند اضافے اور عوام کو لوٹنے کے باوجود تماشا یہ ہے کہ گردشی قرضے کا انبار ہر مرتبہ بڑھ جاتا ہے حکومت کا کام ہے کہ وہ عام صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے۔ نجانے وہ کون سے ممالک ہیں جہاں حکومتیں ایسا کرتی ہیں پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا۔
31 قبل مسیح میں Octavian نے اینتھونی کو شکست دے کر رومن امپائر پر قبضہ کیا۔ اس کے پینتالیس سالہ دور اقتدار میں روم ایک ایسی سلطنت بن گیا جسے مورخین نے Naked Empire یعنی برہنہ سلطنت کا نام دیا۔ اس دوران میں ریاستی ادارے جو عوام کی خوشحالی کے لیے قائم کیے گئے تھے عوام کے دشمن بن گئے۔ اس ملک میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ تمام ادارے عام صارفین کے بجائے نجی اداروں کے مفادات کا محافظ بن گئے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ اقتصادی ماہر جارج اسٹنگلر اس ظلم کو ’’ادارہ جاتی حاکمیت – Regulatory Capture‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جس میں ادارے اپنے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں رہتے بلکہ طاقتور افراد اور مراعات یافتہ طبقے کے محافظ بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں فوجی آمریت ہو یا جمہوری، ضیاء الحق ہو یا پرویزمشرف، زرداری ہو یا نوازشریف یا پھر عمران خان سب ایک ہی نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سودی نظام کے تحت۔ اس نظام کے علمبردار عالمی ادارے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ضرورت مند ممالک کو بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں جب وہ ممالک عدم ادائیگی کی بناء پر قرضوں کی دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں تو انہیں نج کاری یا پرائیویٹائزیشن پر مجبور کیا جاتا ہے، قومی ادارے ملکی یا غیر ملکی سرمایہ داروں کو اونے پونے فروخت کیے جاتے ہیں۔ حکومتی وسائل اور آمدنی محدود ہونے لگتی ہے۔ پھر قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر اس رقم سے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ادا کریں۔ بے محابہ سود کی بناء پر قرضوں کی ادائیگی کے باوجود قرض پھر بھی نہیں اترتے۔ یوں دنیا بھر میں یہ نظام عوام سے سہولتیں چھین رہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان جیسے غریب اور کمزور ممالک میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام عام لوگوں سے سہولتیں چھین رہا ہے۔
اس نظام کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمایہ داروں کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ غریب بد سے بدتر صورتحال سے دوچار ہیں۔ دنیا بھر میں امیر اور غریب کی خلیج تیزی سے وسیع ہورہی ہے۔ میکسیکو کے کارلوس سلم ہوں یا بل گیٹس، ان دو خاندانوں کا یہ حال ہے کہ اگر وہ روزانہ دس لاکھ ڈالر خرچ کریں پھر بھی 218 برس میں بھی ان کی دولت ختم نہیں ہوگی۔ ہمارے حکمران انہی عالمی سود خور اداروں کے ایجنٹ ہیں اور انہی اداروں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں خواہ وہ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بینک یا کوئی اور سرمایہ دارانہ ادارہ۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم ہو یا سرمایہ دارانہ نظام دونوں انسانیت کا مداوا کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ نظام دنیا بھر میں دم توڑ رہا ہے انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔ دنیا کو بالآخر اسلام کی طرف رجوع کرنا ہی پڑے گا۔