عالمگیر آفریدی
پشاور کے کم عمر سپوت محمد حمزہ خان کا برٹش جونیئر انڈر 15 اوپن اسکواش چمپئن شپ کا ٹائٹل جیتنے سے پاکستان کی عا لمی اسکواش میں واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے یا پھر یہ کامیابی محض ایک اتفاق ہے اس کا پتا تو آگے چل کر لگے گا فی الحال اہل پاکستان اور خا ص کر اسکواش کے شائقین کے لیے حمزہ خان کی یہ فتح یقینا ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ واضح رہے کہ برٹش جونیئر اوپن اسکواش چمپئن شپ میں کسی پاکستانی کھلاڑی نے یہ ٹا ئٹل 8 سال بعد برمنگھم میں کھیلی جانے والی چمپئن شپ میں انڈر 15 کے فائنل میں انگلینڈ کے یوسف شیخ کو 16 منٹ میں شکست دے کر یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ محمد حمزہ خان مجموعی طور پر کسی بھی ایج گروپ میں برٹش اوپن ٹائٹل حاصل کرنے والے 13 ویں پاکستانی ہیں جبکہ انڈر 15 کا اعزاز حاصل کرنے والے وہ پانچویں پاکستانی ہیں۔ ان سے قبل اسرار احمد، شعیب حسن، عامر اطلس خان اور فرحان محبوب بھی انڈر 15 میں برٹش اوپن جیت چکے ہیں۔
حمزہ خان کی انڈر 15برٹش اوپن چمپئن شپ جیتنے کی حوصلہ افزاء خبر گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی ان افسوسناک خبروں کے درمیان سے ابھر کر سامنے آئی کہ خیبر پختون خوا کی 15تحصیلوں میں کھیلوں کے میدان اراضی کے مسائل کے باعث تعمیر نہ کیے جا سکے ہیں۔ محکمہ کھیل خیبر پختون خوا کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق صوبہ بھر میں تحصیل سطح پر کھیلوں کے میدانوں کا منصوبہ گزشتہ دور حکومت میں منظور کیا گیا تھا جس کے پہلے فیز میں 47اور دوسرے فیز میں 30کھیلوں کے میدان تعمیر کیے جانے تھے، محکمہ کے مطابق اب تک پہلے فیز میں 41اور دوسرے فیز میں 21 کھیلوں کے میدانوں کی تعمیر مکمل کی جا چکی ہے تاہم دونوں فیزوں میں مجموعی طور پر 15میدان تاحال تعمیر نہیں کے جا سکے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوگا کی کھیل کے میدان نہ صر ف زندگی کی علامت ہیں بلکہ جن قوموں کے کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں ایسی قوموں کو دنیا کی کوئی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی ہے۔ اس حوالے سے ایک مستند قول یہ بھی ہے کہ جن قوموں کے کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں ان قوموں کے اسپتال خالی پڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس قول کے تناظر میں پاکستان اور بالخصوص خیبر پختون خوا کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہماری صورتحال انتہائی دگرگوں بلکہ پریشان کن نظر آئے گی کیونکہ اس وقت اگر ہم اپنے اسپتالوں، کلینکس اور دیگر طبی اداروں میں ہر عمر اور جنس کے افراد کی بھرمار دیکھتے ہیں تو ہمارے لیے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیے بناء اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا ہے کہ ہمارے ہاں نہ صرف کھیل کے میدانوںکی مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ جو تھوڑے بہت ٹوٹے پھوٹے میدان موجود ہیں وہ بھی درکار سہولتیں نہ ہونے کے باعث یا تو خالی پڑے ہیں اور یا پھر ان میدانوں سے اٹھتی ہوئی دھول اور وہاں کی ناقص سہولتیں ہماری نوجوان نسل کو صحت مند اور توانا بنانے کے بجائے مزید بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اچھی صحت اور توانا بدن کا چونکہ براہ راست تعلق ورزش اور کھیل کود سے ہے اس لیے یہ ہر عمر اور ہر جنس کی بلا امتیاز ضرورت ہے لیکن ہما رے ہاں اولاً تو سرے سے یہ کلچر ہی نہیں ہے اور اگر کہیں اس حوالے سے تھوڑا بہت شعور موجود بھی ہے تو اس کو صر ف مردوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ہماری آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ان نوجوانوں کو کھیل کود کی مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے نہ تو کھیلنے کے میدان ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی واضح منصوبہ اور وژن ہے شاید یہ ہماری اسی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ اگر ایک طرف ہمارے نوجوانوں کا قیمتی ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے تو دوسری جانب ہماری نوجوان نسل منشیات، جرائم، مایوسی اور انتہا پسندی کے دلدل میں بھی دھنستی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں ہم کئی دہائیوں تک ہاکی، اسکواش، اسنوکر اور کرکٹ میں عالمی سطح پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں تو اب جب وطن عزیز پر ایک سابق کھلاڑی حکمران ہے اور جس کی اس حکمرانی میں سب سے بڑا ہاتھ اس قوم کے نوجوانوں کا ہے تو کیا اس حکمران اور اس کی حکومتوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ اگر وہ قوم کے نوجوانوں کو اپنے وعدے کے مطابق ایک کروڑ نوکریاں نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں کھیلوںکے میدان اور کم از کم بعض ان ڈور گیمز مثلاً اسکواش، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، اسنوکر، کیرم، شطرنج، والی بال، باسکٹ بال، ہینڈ بال، باکسنگ اور ریسلنگ وغیرہ کی سہولتیں تو فراہم کر سکتے ہیں۔