مہنگائی کا توڑ، مزید لنگر خانے!

479

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے کہا ہے کہ عوام کو مہنگائی سے ریلیف دیں گے ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے وہ طریقہ کار بھی بتایا ہے کہ کس طرح سے حکومت عوام کو سہولت مہیا کرے گی ۔اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان نیازی نے بینظیر انکم سپورٹ کا وظیفہٓ بڑھانے اور مزید لنگر خانے کھولنے کی خوشخبری سنائی ہے ۔ گزشتہ ایک ماہ میں مہنگائی نے جس برق رفتاری کا مظاہرہ کیا ہے ، اُس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آٹے کی قیمتوں میں 20 روپے فی کلو تک اضافہ ہوگیا ۔ آلو اور پیاز کے سواکوئی سبزی 240 روپے فی کلو سے کم پر دستیاب نہیں ہے ۔ تیل اور گھی کی فی لیٹر قیمت 220 روپے تا 300 روپے پر جاپہنچی ہے جبکہ چائے کے 900 گرام کے پیکٹ کی قیمت بھی ایک ہزار روپے ہوگئی ہے ۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے جب دیکھنے میں تمام ہی معاشی اشاریے مستحکم تھے یعنی نہ تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہوئی اور نہ ہی کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا ۔ اسے حکومت کی خراب کارکردگی ہی کہا جائے گا کہ سستی گندم خریدنے والے دگنے داموں پر آٹا یا گندم فروخت کررہے ہیں ۔گندم کی فراہمی کو منافع مافیا نے ریگولیٹ کیا ہوا ہے تاکہ وہ من مانے دام وصول کرسکیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال دیگر اشیاء کی ہے کہ کسان مہنگی سبزی بیچنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ انہیں کھاد ، بیج اور زرعی ادویات ہی بلا کسی معقول وجہ کے مہنگی مل رہی ہیں ۔ اس کا بہترین تدارک تو یہ تھا کہ عمران خان نیازی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دیتے کہ وہ زرعی اجناس کو گروی رکھنے کے عوض دیے گئے قرض فوری طور پر واپس لینے کی کارروائی کریں تاکہ ذخیرہ اندوز اپنے گوداموں میں رکھی گئی زرعی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے پر مجبور ہوں ۔ اس کے بجائے عمران خان نیازی نے فرمایا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وظیفے میں اضافہ کریں گے اور نئے لنگر خانے کھولیں گے ۔ عمران خان کو بھی اس امر کا بخوبی علم ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملک کی کتنی فیصد آبادی فیضیاب ہورہی ہے اور اس میں چند سو روپے ماہانہ اضافے کے کیا مثبت اثرات ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح سرکاری لنگر خانوں سے ان لنگر خانوں کا انتظام کرنے والے سرکاری افسران ، سیاستداں اور ٹھیکیداروں کو تو یقینا فائدہ پہنچے گا مگر عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا ، یہ بھی وہ بخوبی جانتے ہیں۔ اسے عمران خان کی بدترین ناکامی ہی کہا جاسکتا ہے کہ آج مریض محض اس لیے ادویات کی خریداری سے معذور ہیں کہ قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے مہنگی ادویات ہی مریضوں کی استطاعت سے باہر ہوگئی ہیں ۔ ایک بین الاقوامی تنظیم اپسوس کے کیے گئے سروے کے مطابق مہنگائی ، بے روزگاری اور ٹیکسوں نے ملک میں غربت میں اضافہ کیا ہے ۔ عمرانی حکومت اور عوام کی سوچ کے فرق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کے نزدیک گزشتہ دور حکومت میں کی گئی کرپشن ہی ملک کا اہم ترین مسئلہ ہے ۔ وہ موجودہ دور میں کی جانے والی کرپشن کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ان کی اپنی ٹیم میں موجود کرپٹ افراد کو سرکاری ادارے روز ہی شفافیت کا سرٹیفکٹ عطا کررہے ہیں ۔انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب نے عمران خان کے دست راست زلفی بخاری کے خلاف تحقیقات بند کرنے کی منظوری دے دی ہے جبکہ نواز شریف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نئے ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اپسوس کے سروے میں 81 فیصد افراد نے مہنگائی کو ملک کا اصل مسئلہ قرار دیا ہے ۔ اسی طرح 79 فیصد نے بے روزگاری ، 56 فیصد نے غربت کو اور 55 فیصد نے ٹیکسوں کو ملک کا اصل مسئلہ قرار دیا جبکہ محض دو فیصد افراد نے کرپشن، رشوت ستانی اور اقربا پروری کو ملک کا اہم مسئلہ سمجھا ہے ۔ اس صورتحال سے عمران خان کے اپنے اتحادی بھی مطمئن نہیں ہیں اور اب وہ بھی کھلے لفظوں میں سرکار پر تنقید کرنے لگے ہیں ۔حتیٰ کہ وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی مہنگائی اور پنجاب حکومت کی بے تدبیر ی پر آواز اٹھا کر یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ معقول بات بھی کر سکتے ہیں ۔ میں تحریک انصاف کے اتحادی پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں یہی کہا ہے کہ تبدیلی کا مطلب مہنگائی بن گیا ہے ۔ یہی آوازخلق ہے جو عمران خان نیازی کو سنائی نہیں دے رہی ۔