پرویز مشرف کا آخری مکا

474

افتخارعارف کا شعر ایک ذرا تبدیلی کے ساتھ:
’’جنرلز‘‘ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ ’’فیصلے کیے‘‘ جو واجب بھی نہیں تھے
شعر حسب حال ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی حسب حال ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ملک توڑنے والے جنرل کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفنانے کی روایت ہو وہاں ایک دوسرے جنرل کو آئین شکنی اور ایمرجنسی نافذ کرنے جیسے معمولی جرائم پر پھانسی کی سزا!!! پانچ برس پہلے اس کیس کو دائر کرنے پر نواز شریف کی چھترول تو ہوچکی۔ ان پر ایک مقدمہ یہ بھی بننا چاہیے۔ انہوں نے ایسی جرأت کیوں کی۔ یہ قبیح حرکت نواز شریف کے دل ودماغ کی غیر معمولی ٹھرک اور اناڑی پن کا نتیجہ ہے۔ جن کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے ان پر مقدمہ! ہماری عدالتیں جنرلوں کے معاملے میں کوثر وتسنیم اور آب گنگ وجمن میں قلم ڈبو کر فیصلے تحریر کرتی رہی ہیں۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا گیا تھا۔ جنرلوں کے باب میں عدالتی فیصلے اس جذباتیت کے متحمل نہیں ہوسکتے، لاہور ہائی کورٹ نے اسی بات کو صاف کیا ہے۔ پٹیشن کی ایک بڑی خامی یہ قرار دی گئی ہے کہ مقدمہ دائر کرنے سے پہلے کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی۔ یہ نکتہ پرویز مشرف کا مقدمہ دائر ہونے کے کئی برس بعد انصاف کے ساتھ جسٹس ثاقب نثار کی گرمئی صحبت کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے کہیں اس کا ذکر دیکھا نہ سنا۔ نواز شریف کو کئی برس تک جسٹس ثاقب نثار کے ہاتھوں اس نکتے کے آشکار ہونے کا انتظار کرنا چاہیے تھا اس کے بعد ہی کابینہ کی منظوری لے کر مقدمہ دائر کرنا چاہیے تھا۔ عدالت نے فیصلے کی ایک اور وجہ یہ بتائی ہے کہ مجرم کی عدم موجودگی میں سزا نہیں سنائی جاسکتی۔ یہ نکتہ عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس کھوسہ صاحب کی چشم عدل سے نجانے کیوں پوشیدہ رہا جنہوں نے خصوصی عدالت پر زور دیا تھا کہ پرویز مشرف کے وکلا جو کچھ دلائل دے سکتے تھے دے چکے، خود پرویز مشرف بھی جن میں اضافہ نہیں کرسکتے لہٰذا آپ فیصلہ سنا دیجیے۔ اب نجانے لاہور ہائی کورٹ بالاتر ہے یا عدالت عظمیٰ۔ کس کی آرتی اتاری جائے؟ نوازشریف کو ان کی غیر موجودگی میں سزا کیسے سنادی گئی تھی؟ جس پر عمل بھی ہوا، جب انہوں نے بیرون ملک سے آکر گرفتاری دی تھی۔ الطاف حسین پر قتل کا مقدمہ کیوں چل رہا ہے جب عدم موجودگی میں سزا نہیں دی جاسکتی؟۔ سویلینزکو ان سزائوں پر عدالتوں سے بغل گیر ہونا چاہیے یا اسٹیبلشمنٹ کی قدم بوسی کرنا چاہیے؟۔ خصوصی عدالت کے فیصلے سے جو کہرام مچا تھا اتنا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کو بذات خود خصوصی عدالت کو کھری کھری سنانی پڑی تھی وہ کہرام اب جشن فتح میں تبدیل ہوچکا ہے۔ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن سب نے اس فیصلے کو اپنے اندر ایسے سمویا ہے جیسے چٹختے انڈے سے باہر نکلتے ہی مرغی چوزے کو اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے۔ عوام اور ملک کے سنجیدہ حلقے نجانے کیوں ایسے فیصلوں کو ملک وقوم کے لیے نحوست باور کررہے ہیں جس میں آئین توڑنے والے کو سزا سنانے والی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈنڈا بیڑی ڈال کر ڈی چوک تک گھسیٹ کر لانا چاہیے۔
سر مقتل شب آرزو، رہے کچھ تو ’’عدل‘‘ کی آبرو
جو نہیں عدو تو فراز تُو، کہ نصیب دار کوئی تو ہو
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر معترضین اور عوام کو کیا کرنا چاہیے۔ انہیں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کس میں اتنا دم ہے۔ ہمیں تو کالم لکھتے ہوئے تھرتھری آرہی ہے۔ اللہ سب کو لاپتا ہونے سے محفوظ رکھے۔ انگریز مجرم کو زندہ رکھتے ہوئے جو انتہائی سزا دیتا تھا وہ کالا پانی کی قید ہوتی تھی۔ انگریزوں کے ذہن رسا میں نجانے کیوں لوگوں کو لاپتا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ لاپتا چیزوں سے سب کا دم نکلتا ہے۔ ایک شیر بندروں کی طرف لپکا۔ سب بندر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک بندر قریبی درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا چڑھا۔ بھوکا شیر اتفاق سے اسی درخت کے نیچے کھڑا ہوکر دھاڑا۔ بندر خوف ودہشت سے بے ہوش ہوکر شیر کی کمر پر آگرا۔ آسمان سے گری لاپتا بلا سے شیر اتنا خوف زدہ ہوا، ایسا بھاگا کہ مڑکر نہیں دیکھا کہ کیا گرا ہے۔ درخت کا ایسا ڈر بیٹھا کہ کسی درخت تلے دم لینے نہیں رکا۔
اس ملک کو لاہور ہائی کورٹ جیسے اسپیشل فیصلوں اور غیر آئینی اقدام کی عادت پڑ گئی ہے۔ ایک دیوار پر یہ جملہ لکھا دیکھا تو بہت لطف آیا ’’الو کے پٹھو، یہاں گھر کے آس پاس کوڑا کرکٹ پھینکتے ہوئے کوئی بھی پکڑا گیا تو اس کے خلاف ’’غیر قانونی‘‘ کاروائی کی جائے گی‘‘۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں جانا فرشتوں کو تائو دلانے والی بات ہے۔ عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنا عظمی (عدالت عظمی) کو بے آرام کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت میں وکلا جب جب پلٹ پلٹ کر سوال کریں گے تو انصاف کا گلا خشک ہونے لگے گا۔ ایک بار پھر ملک میں فوج اور غیر آئینی اقدام ہم معنی و ہم خیال ہو جائیں گے۔ عدالت کے لیے مشکل ہوجائے گا انصاف کرکے عوام کو خوش کرے یا پھر انصاف کے نقارہ خلق کو شیطان کے سپرد کردے۔
اس کیس کو بہتر ہے کہ دفن ہی کردیا جائے۔ اس فیصلے سے کون سا قومی مفاد جڑا ہے۔ یہ سوچنا عوام کا کام نہیں۔ عوام کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ قومی مفاد کا تعین کریں۔ انصاف کی راہ دیکھتے افکار ونظریات سے بہتر ہے کہ سول ملٹری تعلقات کو ایک پیج پر رکھا جائے۔ ایک جمی جمائی حکومت، انصاف اور معیشت کی قربانی دینے کے بعد یہ تعلقات ہموار سطح پر آئے ہیں۔ پرویز مشرف کو سزا جیسے فیصلے سے کوئی قومی خدمت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ سول ملٹری تعلقات کا پیج پھٹ جاتا۔ اس ملک میں اگر رہنا ہے تو اللہ آرمی اور امریکا سے بنا کر رکھنی ہوگی۔ زرداری کے بعد اس نکتے پر اگر کوئی مکمل تندہی سے عمل کررہا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ امریکا سے ان کے تعلقات کی استواری کا خود صدر ٹرمپ اعتراف کرچکے ہیں کہ سابق حکومت ہمیں احترام نہیں دیتی تھی عمران خان مکمل احترام دے رہے ہیں۔ آرمی کی طرف داری کا جہاں تک تعلق ہے تو اس معاملے میں عمران خان سر سے پائوں تک استقامت کی تصویر ہیں۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح اور قوم کی عادتیں خراب کرنے کی ایک کوشش تھا جسے ناکام بنادیا گیا۔ ہمارے فرشتوں اور عدالتوں کی عادتیں پختہ ہو چکی ہیں۔ راتوں رات عادتیں نہیں بدلی جاسکتیں۔ ہر چیز درست نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بری عادتوں کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ داغ تو اچھے ہوتے ہیں کا رویہ اپنانا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح بستر کی چادر ٹھیک نہ کرنے سے آپ مختلف اقسام کی الرجی سے محفوظ رہتے ہیں۔ گالیاں دینے اور بری زبان استعمال کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے اب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ردعمل ظاہر کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ستر بہتر برس سے پرویز مشرف جیسوں کے مکوں کے پیہم استعمال نے فوج کی قوت میں بے حد اضافہ کردیا ہے کس میں اتنی ہمت کہ ان کے ردعمل کا سامنا کرے۔
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے