یہ مضحکہ خیز بات ہے تو بہت پرانی لیکن اسے دہرا نے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ کمزور انسان کسی کی زیادتی سہہ سہہ کر اندر ہی اندر جلتا اور کڑہتا رہتا ہے اور جب اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑتا ہے تو وہ اپنے بڑے پر پھٹ کر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ صاحب اب زیادتی کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے ورنہ… جب صاحب گردن تان کر پوچھتے ہیں کہ ورنہ کیا، تو وہی غریب، بے بس، لاچار اور پسا ہوا انسان گردن جھکا کر بڑی بے بسی اور آہستہ آواز میں یہی کہتا ہے کہ ’’ورنہ اسی تنخواہ پر گزارا کروںگا‘‘۔ یہی حال ایک طویل عرصے سے پاکستان کا بھارت کے ساتھ ہے کہ جب بھی بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر کسی جارحانہ کارروائی کا ارتکاب ہوتا ہے پاکستان شدید بر ہمی کا اظہار کرتا ہے اور اس کے فوراً بعد ایک طویل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
14 جنوری 2020 کو اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ڈی جی سائوتھ ایشیا زاہد حفیظ چودھری نے بھارتی ناظم الامور گورو اہلوالیا کو احتجاجی مراسلہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی طرف سے 2017 سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی ہے اور اس دوران بھارت کی جانب سے سیکڑوں بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ بھارتی فوج شہری آبادیوں کو بھاری اسلحے سے نشانہ بنا رہی ہے، اور 11جنوری کو بھی بلا اشتعال فائرنگ سے چوکی گاؤں کے 24 سالہ محمد اشتیاق شہید ہوگئے۔ مراسلے میں تنبیہ کی گئی ہے کہ جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنانا انسانی عظمت، بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی ہے اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مزید برآں پاکستان نے 2003 کے جنگ بندی معاہدے کا احترام کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اپنی افواج کو جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کرے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر امن برقرار رکھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جو بھی خلاف ورزی بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے اور اس سے جو جانی و مالی نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑتاہے کیا وہ معمول کی کارروائی بن کر نہیں رہ گئی؟۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب ایسی کارروائیاں نہیں ہوتی ہوں۔ ہر جارحیت کے بعد یہ بات بھی معمول کی کارروائی بن گئی ہے کہ بھارتی ناظم الامور کو طلب کیا جاتا ہے اور بطور احتجاج اس کو یا تو زبانی کلامی کچھ کہہ سن لیا جاتا ہے یا پھر حسب روایت اس کے ہاتھ میں احتجاجی مراسلہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ بھارت کی جارحیت اور پاکستان کی صدائے احتجاج ایک ایسی عام سی بات بن کر رہ گئی ہے جو اپنا اثر کھو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں۔ یہ ایک ایسا فعلِ قبیح ہے جو فاتح ہو یا مفتوح، دونوں کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ پاکستان جنگ سے اسی لیے گریز کرتا چلا آیا ہے کہ نتیجے میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن بار بار کی سرحدی خلاف ورزیاں بھی اعصاب شکنی کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔ اگر یہ خلاف ورزیاں طول پکڑ جائیں تو پھر سرحد کی نگرانی کرنے والے جوانوں کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کرتی ہیں۔ بقول پاکستان، 2017 سے اس قسم کی خلاف ورزیاں زور پکڑتی جارہی ہیں۔ اس بیاں کے بین السطور دیکھا جائے تو گویا یہ کارروائیاں ایک طویل عرصے سے جاری تھیں جن میں 2017 کے بعد سے بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جو پاکستان کے لیے بہت تشویش کی بات ہے۔ بیشک اس کو ’’جنگ‘‘ کا نام تو نہیں دیا جا سکتا۔لیکن یہ بھی کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف محدود پیمانے پر ہی سہی، جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔
یہ سرحدی چھیڑ چھاڑیں بظاہر بہت معمولی سی محسوس ہوتی ہیں لیکن ماضی پر نظر ڈالی جائے تو کشمیر کے محاذ کی یہی چھوٹی چھوٹی سرحدی خلاف ورزیاں، پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بہت بڑی بڑی جنگوں کا سبب بن چکی ہیں۔ بھارت کی جانب سے ہر جارحانہ کارروائی کے بعد پاکستان کا بھارتی ناظم الامور کو بلانا، ان سے زبانی احتجاج یا ان کے ہاتھ میں احتجاجی مراسلہ حوالے کر دینا بے شک ایک قانونی طریقہ ہے جس پر بہر صورت عمل کرنا چاہیے لیکن سرحد پر کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کا نہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ بار بار کا احتجاج اور بار بار کی خلاف ورزیاں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یا تو پاکستان بے بسی کی ایک تصویر ہے یا پھر اتنا مصلحت پسند بنا ہوا ہے کہ دو ٹوک بات کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکانے سے اجتناب ہی اچھا ہے لیکن اگر کوئی خود سری پر ہی اتر آئے تو پھر ان کے جنون کا سدِ باب صرف بات چیت نہیں ہوا کرتا بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت کی جانب سے ہر کارروائی کے جواب میں پاکستان جوابی حملہ ضرور کرتا ہے اور اپنے نقصان سے کہیں زیادہ نقصان بھارت کو پہنچاتا ہے۔ پاکستان جوابی کارروائی میں کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتا جس سے معصوم جانوں کا ضیاع ہو، آبادیوں میں رہنے والے متاثر ہوں اور وہ لوگ زد میں آئیں جو بے قصور ہوں جبکہ دشمن ہمیشہ کمزوروں، معصوموں، عورتوں اور بچوں تک کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا۔ جب بھارت کی ہٹ دھرمی اور بہیمیت کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی ہٹ پر اترا ہوا ہو تو پھر پاکستان کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے صرف احتجاج کرنے اور مراسلات پکڑانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کا مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بھارت اگر اپنی اوچھی حرکتوں سے بازا نہ آئے تو پاکستان احتجاج کے ساتھ ہی اسے اپنی جانب سے آخری وارننگ دیدے اور صاف صاف بتادے کہ اب اگر کسی بھی قسم کی کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو پھر پاکستان ہر حد سے آگے نکل کر کارروائی کرے گا، لہٰذا اب اس قسم کی ہر جارحیت کو بند ہو جانا چاہیے۔
یہ بات بھی پاکستان کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ہر جارحیت پر صرف احتجاج کیے جانا دشمن کے حوصلوں کو بڑھا تا جائے گا اور ایک وقت وہ بھی آ جائے گا کہ جس بڑی جنگ سے پاکستان اپنے دامن کو بچانا چاہ رہا ہے اس کے شعلے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہوںگے۔ اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے، ضروری ہے کہ پاکستان صرف معمول کے احتجاج پر ہی انحصار نہیں کرے بلکہ اب اس احتجاج میں ٹائم فریم یا باالفاظِ دیگر ڈیڈ لائین یعنی ایک آخری حد بھی مقرر کرے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو صدائے احتجاج ایسی ہی سمجھی جائے گی جیسے کلاس ٹیچر کسی شریر بچے کی گوش مالی کرکے چھوڑ دے یا اس کے والدین کو بلا کر بچے کی شکایت لگاتا رہے لیکن کسی بھی قسم کے انتہائی اقدام سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کرتا رہے۔ اس سے نہ صرف بچے کی شرارتوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ پہلے پوری کلاس اور پھر آہستہ آہستہ پورے اسکول کا ماحول ہی ابتری کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ بقول رحمان کیانی۔
ایک تلوار سے دشمنوں کا کبھی
کچھ بگڑتا نہیں بلکہ تلوار ہی
ٹوٹ جاتی ہے زخمِ مکافات سے
چھوٹ جاتی ہے خود ظلم کے ہاتھ سے
لیکن انسان پر ظلم کے ہاتھ کو
روکنا فرض ہے موڑنا فرض ہے
ایک ظالم کے ہاتھوں سے تلوار کو
چھیننا فرض ہے توڑنا فرض ہے
اس سے پہلے کہ وہ اپنی حد سے بڑھے
ہم پہ لازم ہے امن و اماں کے لیے
اس کے سینے میں سنگین ہم بھونک دیں
جنگ کی آگ میں خود اسے جھونک دیں