آئیے جدیدیت کے تخلیق کیے ہوئے چند حقائق پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔
مغربی دنیا کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام کے مطابق یورپی اقوام نے 1480 سے 1940 تک جو باہمی جنگیں لڑیں ان کی تفصیل یہ ہے۔
سال… جنگیں
1480-1499…9
1500-1599…87
1600-1699… 239
1700-1799… 781
1800-1988…651
1900-1940… 892
اس طرح یورپ نے 460 سال میں 2659 جنگیں لڑیں۔ (The Anatomy of Human Destructiveness:Page-215)
مغرب کے ممتاز دانش ور مائیکل مان کے مطابق سفید فام لوگوں نے ’’Americas‘‘ میں 8 سے 10 کروڑ مقامی باشندوں کو قتل کیا۔
(Dark Side of the Democracy)
چند روز پیشتر کی ایک خبر کے مطابق دنیا میں ہر سال ٹریفک حادثوں میں 12 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ جب کہ ٹریفک حادثوں سے زخمی ہونے والوں کی تعداد ’’صرف‘‘ 5 کروڑ 40 لاکھ ہے۔
(Daily Dawn Karachi-10 January 2020)
ایک تحقیق کے مطابق ہر سال جدید دوائوں یا اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے 7 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک Antimicrobial Resistance سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ ہوجائے گی۔
(World Economic Forum Website)
ایک تحقیق کے مطابق 2017 میں عریاں فلموں کی صرف ایک Site پر Visits کی تعداد 28.5 ارب تھی۔ اس اعتبار سے ایک سیکنڈ میں Site پر ایک ہزار Visite ہوئیں۔ اس اعتبار سے Site پر ایک دن میں 7 کروڑ 81 لاکھ Visits ریکارڈ کی گئیں۔ ایک سال کی مدت کچھ بھی نہیں ہوتی مگر صرف ایک سال میں یعنی 2017 سے 2018 تک مذکورہ Website پر Visits کی تعداد بڑھ کر 33 ارب سالانہ ہوگئی تھی۔
(Fight the new drugorganization)
ایک رپورٹ کے مطابق 2016 میں عریاں فلموں سے سب سے زیادہ ’’استفادہ‘‘ کرنے والے دس نمایاں ملک یہ تھے۔ (1) امریکا (2) برطانیہ (3) کینیڈا (4) بھارت (5) جاپان (6) فرانس (7) جرمن (8) آسٹریلیا (9) اٹلی (10) برازیل۔
(Bustle.com)
فحاشی کا ذِکر ہورہا ہے تو ’’سرمائے کی فحاشی‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ اوکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے صرف آٹھ افراد کے پاس اتنی دولت ہے جو ساڑھے تین ارب انسانوں کی مجموعی دولت کے برابر ہے۔
جدیدیت کی ایک ’’Product‘‘ جمہوریت بھی ہے۔ برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 167 جمہوری ممالک میں سے 83 ممالک میں جمہوریت ترقی معکوس کا شکار ہے، یعنی وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہی ہے۔
(دی اکنامسٹ 5 تا 21 ستمبر 2018ء)
ہم یہاں جدیدیت کے پیدا کردہ ایسے مزید سو ہولناک نتائج کی فہرست مرتب کرسکتے ہیں لیکن جدیدیت کے مذکورہ بالا آٹھ نتائج کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو کوئی بھی باشعور انسان جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا پر تھوک سکتا ہے۔
جدید مغرب کا دعویٰ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس سے زیادہ ’’پرامن‘‘ اور ’’انسان دوست‘‘ کوئی نہیں ہوا لیکن خود مغرب کے ممتاز دانش ور اور ماہر نفسیات ایرک فرام نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں جدید مغرب سے زیادہ ’’پرتشدد تہذیب‘‘ کوئی نہیں ہوئی۔ اگر ایک تہذیب 460 سال میں 2659 جنگیں لڑ سکتی ہے تو اس سے بڑھ کر ’’طاقت پرست‘‘ کون ہوگا؟ اہم بات یہ ہے کہ یورپ جیسے جیسے جدیدیت کی طرف بڑھا جنگوں کی تعداد بھی ویسے ویسے بڑھتی چلی گئی۔ مغرب نے اصل ’’ترقی‘‘ اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں کی۔ اعداد و شمار کے مطابق انہی صدیوں میں یورپ سب سے زیادہ جنگ پرست ثابت ہوا۔ خود ایرک فرام نے اپنی کتاب میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ قدیم آدمی یا اس کی اصطلاح میں Primitive man صرف اپنے ’’دفاع‘‘ کے لیے دوسرے انسانوں کو ہلاک کرتا تھا مگر مغرب کا پیدا کردہ جدید انسان ’’کھیل‘‘ کے طور پر انسانوں کو مارتا ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت امریکا کی تاریخ ہے۔ سفید فام امریکا پہنچے تو ان کا سامنا ان انسانوں سے ہوا جن کے پاس نہ بندوق تھی نہ توپ تھی۔ چناں چہ وہ چاہتے تو بہت کم طاقت استعمال کرکے امریکا پر قابض ہوسکتے تھے مگر مائیکل مان کی شہادت کے مطابق انہوں نے ’’Americas‘‘ میں آٹھ سے دس کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود پورا مغرب خود کو ’’پرامن‘‘ بھی کہتا ہے اور ’’مہذب‘‘ بھی۔ وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کا بھی علمبردار ہے اور اسی کے سر پر ’’برتر علم‘‘ دستار فضیلت بھی رکھی ہوئی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر گدھے، گھوڑے اور اونٹ کی سواری سے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں ایک لاکھ افراد بھی ہلاک ہوگئے ہوتے تو جدید دنیا کہتی کہ عہد قدیم کی سواریاں تک ’’انسان دشمن‘‘ تھیں مگر اب ایک سال میں 12 لاکھ افراد ٹریفک حادثوں میں ہلاک اور پانچ کروڑ چالیس لاکھ افراد زخمی ہوجاتے ہیں اور کوئی اتنے بڑے جانی نقصان کا نوٹس بھی نہیں لیتا۔ کوئی موٹر سائیکلوں، کاروں اور بسوں کو نہ ’’انسان خور‘‘ سمجھتا ہے نہ کہتا ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ بڑی بڑی جنگوں میں بھی 12 لاکھ افراد ہلاک اور 5 کروڑ 40 لاکھ افراد زخمی نہیں ہوتے اور ہوتے ہیں تو دنیا دہل کر رہ جاتی ہے۔ مگر ٹریفک حادثات سے ہونے والے جانی نقصان سے آج تک شہ سرخی تخلیق کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ یہی قصہ ایلوپیتھک ادویات کا ہے۔ جس طرح جدید مغرب نے روایتی مذہب، روایتی تہذبی، روایتی ادب، روایتی موسیقی کو ’’حقیر‘‘ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح جدید طب نے علاج کے تمام روایتی طریقوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اگر کسی طرح یہ ثابت ہوجاتا کہ طب یونانی، طب اسلامی یا ہومیوپیتھک دوائوں سے ہر سال 7 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں تو جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا اسے ایک بہت بڑا اسکینڈل بنادیتی، مگر جدید ادویات ابھی سال میں 7 لاکھ انسان ہلاک کررہی ہیں اور 2050 تک وہ ایک کروڑ افراد کو ہلاک کرے گی۔ تاہم یہ بات تاحال کوئی بڑی خبر نہیں بن سکی ہے۔
ایک وقت تھا کہ جسم پرستی مغرب میں ایک ’’آرٹ‘‘ تھی مگر مغرب نے اسے اب ایک ’’مذہب‘‘ بنادیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ عریانیت یا ’’پورنو گرافی‘‘ کی صرف ایک ویب سائٹ کو ایک سال میں تقریباً 29 ارب بار Visit کیا جاتا ہے۔ ایک عریاں ویب سائٹ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسی سیکڑوں ویب سائٹس سے ’’استفادہ‘‘ کرنے والوں کی تعداد کیا ہوگی؟ بدقسمتی سے جدیدیت نے اس ’’تحفے‘‘ کو بھی زندگی کا ’’معمول‘‘ بنادیا ہے۔ اس صورتِ حال پر نہ کوئی چونکتا ہے، نہ بولتا ہے، یہاں تک کہ کوئی اس صورتِ حال پر ’’بھونکتا‘‘ تک نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب میں جنسی آزادی کو ارزاں ہوئے سوسال ہوگئے ہیں مگر وہاں جنس کی بھوک کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ چناں چہ 2016 میں عریاں ویب سائٹس سے رجوع کرنے والے دس بڑے ممالک میں سے سات ممالک کا تعلق مغرب سے ہے۔
سرمایہ داری اور جمہوریت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ نہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوگا نہ سیاسی طاقت چند ہاتھوں تک محدود ہوگی، مگر جدید مغربی تہذیب نے خود اپنے ہی تصورات کی مٹی پلید کردی ہے۔ چناں چہ دنیا کے صرف 8 انسانوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی دولت دنیا کے ساڑھے تین ارب انسانوں کے پاس ہے۔ جمہوریت کا تماشا یہ ہے کہ وہ ہر جگہ بادشاہت بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ کہیں یہ سرمایہ داروں کی بادشاہت ہے، کہیں جرنیلوں کی بادشاہت ہے، کہیں ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کی بادشاہت ہے، کہیں جاگیرداروں اور Electables کی بادشاہت ہے۔ مگر اس صورتِ حال پر بھی کہیں بڑا ہنگامہ برپا نہیں ہے۔ جدیدیت کے جمہوری اور سرمایہ دارانہ ڈھکوسلے کو بھی پوری دنیا نے قبول کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر انسانوں کی عظیم اکثریت نے جدیدیت کے آگے ہتھیار کیوں ڈال دیے ہیں اور وہ اس کے پیدا کردہ ہولناک نتائج کے خلاف موثر صدائے احتجاج تک کیوں بلند نہیں کرتے؟۔
ان سوالات کا ایک جواب یہ ہے کہ جدیدیت کے اس تصور تاریخ کا جادو انسانوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے جس پر ڈارون کے تصور ارتقا کا گہرا اثر ہے۔ یہ تصور تاریخ انسانوں کو بتاتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ چار ادوار میں منقسم ہے۔ اس تصور تاریخ کے مطابق تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ یہ انسانیت کا عہد طفولیت تھا۔ انسان کچھ بڑا ہوا تو اس نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا۔ یہ گویا انسانیت کا بچپن تھا۔ انسانیت جوان ہوئی تو اس کی فکر فلسفے کی صورت میں منظم اور مرتب ہوگئی۔ یہ انسانیت کا عہد نوجوان تھا مگر انسانیت نے ارتقا کا سفر جاری رکھا تو انسان ’’سائنسی عہد‘‘ میں داخل ہوا۔ یہ گویا انسانیت کی ’’بلوغت‘‘ کا عہد ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب انسان کو ایک بہت ہی معمولی چیز نظر آئے گا اور مذہب سے رجوع کرنا گویا انسانیت کے عہد طفولیت سے رجوع کرنا ہوگا۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کے ممتاز دانش ور ایلون ٹوفلر نے اپنی تصنیف Future Shock میں تسلیم کیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انسانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں اور وہ انسانیت کو تباہی سے دوچار کرنے ہی والی ہیں۔ اس کے باوجود ٹوفلر نے لکھا ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران سے ہمیں نکالیں گی۔ ہمیں اس سلسلے میں مذہب کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدیدیت نے ’’متبادل بیانیے‘‘ کے تصور کو فنا کردیا ہے۔ یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ اب دنیا بدلے گی تو ’’اصلاح‘‘ سے نہیں ’’انقلاب‘‘ سے۔ دنیا میں انقلاب کا امکان صرف ’’مذہبی شعور کے اندر ہے۔ مگر بدقسمتی سے مذہبی شعور دنیا میں انقلاب برپا کرنے کے خواب سے دستبردار ہوچکا ہے۔ وہ اب جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں خود کو ’’Adjust‘‘ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔