سرمایہ کاری یا سودی قرضہ؟

506

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فخریہ انداز میں رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان کے ٹریژری بلز کی 15 جنوری کو کی جانے والی نیلامی میں پاکستان میں 537 ملین ڈالر آئے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک روز میں آنے والی سب سے زیادہ مالیت کی رقم ہے ۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں اسے پاکستان میں سرمایہ کاری قرار دیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ غیر ملکی یا پاکستانی افراد کے اپنے غیر ملکی فرنٹ مینوں کے ذریعے پاکستانی حکومت کو دیا جانے والا قرض ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں براجمان آئی ایم ایف کی ٹیم کی مہربانی سے اس وقت پاکستان میں شرح سود بلند ترین سطح 13.25 فیصد پر ہے جبکہ بینک آپس میں ایک دوسرے کو 13.28 فیصد پر قرض فراہم کررہے ہیں ۔ دنیا بھر میں سود کی شرح عمومی طور پر 3 تا 4 فیصد ہوتی ہے ۔ اس کے مقابلے میںسود خوروں کو پاکستان میں تین گنا سے زاید رقم بلا کسی محنت کے حاصل ہورہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سود خور اپنی رقم پاکستان کو بھاری شرح سود پر فراہم کررہے ہیں ۔ گزشتہ جولائی سے اب تک پاکستان محض سرکاری تمسکات کی نیلامی کے ذریعے ہی 2.2 ارب ڈالر بطور قرض حاصل کرچکا ہے ۔ چونکہ یہ قرض عمومی طور پر قلیل مدتی یعنی چھ ماہ تا ایک سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے ، اس لیے جلد ہی یہ قرض مع بھاری شرح سود کے واپس کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت مزید ابتری کا شکار ہوجاتی ہے ۔ پرانے قرض کو واپس کرنے کے لیے حکومت مزید نئے قرض لیتی ہے اور یوں پاکستانی قوم کو ایسی دلدل میں پھنسادیا گیا ہے جس سے باہر نکلنے کی آئی ایم ایف کی ٹیم کی موجودگی میں کوئی امید نظر نہیں آتی ۔ ملک کی معاشی صورتحال کا اندازہ ایوان بالا میں وزارت خزانہ کی جمع کروائی گئی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 9ماہ میں مالی خسارہ ایک ہزار 922 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ عمران خان نیازی کی معاشی کامیابی کا اندازہ اقوام متحدہ کی تنبیہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار 3.3 سے مزید گر کر 2.1 فیصد پر آجائے گی ۔ عمرانی حکومت ہر شعبہ زندگی میں ناکامی کا شکار ہے مگر معاشی شعبہ کا تو حال سب سے زیادہ برا ہے ۔ حکومت روز ایک نیا ٹیکس لگاتی ہے اور پٹرول ، گیس و بجلی کے نرخوں میں بلاجواز اضافہ کرتی ہے جس کے باعث تجارتی سرگرمیاں جمود سے آگے بڑھ کر سکڑنے کے درجے پر پہنچ گئی ہیں ۔ مہنگائی نے عملی طور پر عوام کی چیخیں نکال دی ہیں مگر عمران خان کی آنیاں اور جانیاں جاری ہیں ۔ ان کے پاس ایک ہی نعرہ ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا مگر عملی طور پر وہ کسی بھی ایک فرد سے لوٹی گئی ایک کوڑی تک وصول نہیں کرسکے ۔ عمران خان کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ سینیٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں وزارت خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس جمع کرنے کا ہدف حاصل نہیں کرسکی ۔ ہدف کے مقابلے میں 113 ارب روپے کم جمع ہوئے ۔ یہ تو اعداد و شمار ہیں ، عمومی صورتحال دیکھیں تو دل شق ہونے لگتا ہے ۔ ہر طرف بیروزگاری نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔ جو لوگ برسرروزگار ہیں ، وہ بھی کئی گنا مہنگائی بڑھنے کے سبب نان شبینہ کو محتاج ہورہے ہیں ۔ چینی ، گندم سمیت جس بحران کا سرا ڈھونڈھنے نکلیں ، اس کے پیچھے سرکاری ٹیم میں بیٹھے افراد ہی کے نام نظر آتے ہیں ۔ اس صورتحال کے تدارک کے بجائے عمران خان بنی گالہ میں بیٹھے چین کی بانسری بجارہے ہیں ۔جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے درست سوال کیا ہے کہ قرضوں اور غلامی کے ایندھن پر کب تک حکومت کی گاڑی چلے گی ۔ بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس پوری صورتحال کو دیکھنے اور سامنا کرنے کے باوجود عوام میں بیداری کی کوئی لہر نہیں ہے ۔ خواص تو خواص ، عوام نے بھی حالات کے سامنے سپر ڈال دی ہے ۔ کوئی بھی اپنے حلقے کے منتخب رکن سے یہ سوال نہیں کررہا کہ حالات کو بہتر کرنے کے بجائے بگاڑے کیوں گئے اور گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی پر مرثیہ پڑھنے والوں کی اپنی کارکردگی کیا ہے ۔ گزشتہ حکومتوںنے ملک کو مقروض کیا تو عمرانی حکومت نے ان سے زیادہ قرض لیا۔ گزشتہ حکومتوں نے اگر آئی ایم ایف کے املا پر عمل کیا تو عمرانی حکومت نے آئی ایم ایف کی ٹیم ہی کو لاکر عوام پر براہ راست مسلط کردیا ۔ اب تو عوام کی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ یہ کھوٹے سکے نام بدل بدل کر حکومت میں آرہے ہیں ۔ اگر اس صورتحال سے نجات چاہتے ہیں تو پھر انہیں ان جونکوں سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی ۔ عمران خان اپنا کہا ہوا یہ جملہ یاد رکھیں کہ مہنگائی بڑھنے کا مطلب ہے حکمران چور ہیں۔