حکومت سو گئی اور سگ آزاد

177

اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ سندھ میںگزشتہ ایک برس کے دوران دو لاکھ افراد کو کتوں نے کاٹا جن میں سے سیکڑوں افراد جان سے گئے مگر صوبائی و بلدیاتی حکومتوں کے پاس کتوں کو مارنے کا نہ تو کوئی منصوبہ موجود ہے اور نہ ہی ان کا اس قسم کا کوئی ارادہ ہے ۔ میڈیا پر مہم ضرور چلتی ہے کہ اسپتالوں میں کتے کے کاٹے سے ہونے والی بیماری ریبیز کے علاج کے لیے ویکسین فراہم کردی گئی ہے مگر اصل وجہ آوارہ کتوں کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ کراچی جیسے شہر میں ہر علاقے اور گلی کوچے میں آوارہ کتوں کے غول کے غول گھومتے نظر آتے ہیں مگر بلدیاتی ادارے اور صوبائی حکمران اس پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے سورہے ہیں ۔ عملی طور پرصوبائی حکومت نے سندھ کے عوام کو کچرے کے ڈھیر میں دفن اور سیوریج کے پانی میں ڈبونے کے بعد اب کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پوری توجہ پولیس کے سربراہوں کو ہٹانے پر تو رہتی ہے مگر عوامی مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ سگ گزیدگی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے پورے صوبے میں کتا مارنے کی ہنگامی مہم چلائی جانی چاہیے تھی ، اس کے لیے ایک فوکل پرسن کا تقرر کیا جاتا اور اس پر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کی جانی چاہیے تھی ۔ اس کے بجائے سید مراد علی شاہ کی پوری دلچسپی صرف اور صرف بلاول ہاؤس میں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں بلکہ بلاول ہاؤس کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کھیل کے میدانوں اور فٹ پاتھوں پر لگنے والے جتنے بچت بازار ختم کیے گئے تھے، اب وہ سب دوبارہ سے آہستہ آہستہ لگنے شروع ہوگئے ہیں ۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے کی ذمہ دار پولیس نے فٹ پاتھوں پر اپنی مسمار چوکیوں کی تعمیر شروع کردی ہے ۔ مذکورہ بالا صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ہی تصویر بنتی ہے کہ اب سندھ میں قانون کا راج ختم ہوگیا ہے ، سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی اور قانون کے رکھوالے ہی قانون شکن بن گئے ہیں۔