جمہوریت فنا ہورہی ہے!

218

بہت عرصہ قبل ہم نے انہی کالموں میں لکھا تھا کہ ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ضروریات زندگی کے تمام وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں مگر حکمران طبقہ عوام کو دال روٹی کے چکر میں پھنسا کر اپنی تجوریاں بھرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ اس حقیقت سے ہر سیاست دان آگاہ ہے کہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے، ملک کو مستحکم بنانے کے لیے ملک کی تاریخ پر نظر رکھنا کافی نہیں ہوتا ازبر کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا جو حکمران اپنے پیش رو حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں وہی اچھے اور کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا قیام، قیام پاکستان کی طرح خوش آئند تھا، قوم کو پاکستان سے بہت سی توقعات تھیں۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو قوم کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی سحر ہے جس کا انتظار تھا مگر بدنصیبی یہ ہوئی کہ قیام کے بعد اس کے خدوخال کیا ہوں گے اسے کس انداز میں چلایا جائے گا۔ طرز حکمرانی کے لیے کون سے اقدام اور کون سا نظام ضروری ہوگا۔ عمران خان نے بھی حکومت ملنے کے بعد کون کون سے اقدامات کو اہمیت اور فوقیت دی جائے گی کے بارے میں کوئی منصوبہ سازی نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ وہ صرف وزیراعظم بننے کے خواہش مند تھے سو، ان کی خواہش پوری ہوگئی اب وہ لمبی تان کر سورہے ہیں اور ان کے حواری لمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں۔ بدنصیبی یہ بھی کہ پاکستان پر قابض طبقہ فکری طور پر عوام کی جیبوں کی طرح خالی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی تین کروڑ بیاسی لاکھ تھی، مغربی پاکستان کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ تھی اب بائیس کروڑ ہے۔ ہر سال تیس لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں مگر پینے کے لیے صاف پانی نہ معیاری خوراک میسر تھی۔ اکثریت ایک کمرے کے مکان میں رہتی تھی بہت سے خاندان پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھاسکتے تھے۔ بے ہنگم آبادی مختلف مسائل کا سبب بن رہی تھے مگر کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جنرل ایوب خان نے اس مسئلے توجہ دی مگر سیاسی جماعتوں نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ فیملی پلاننگ کی گاڑیوں کو آگ لگادی جاتی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کچھ کام ہوا۔
ہر سال بچہ پیدا ہونے سے خواتین بیمار ہوجاتی ہیں مگر ان کی مناسب دیکھ بھال کا کوئی بندوبست نہیں۔ وزیراعظم عمران خان عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے سابق حکمرانوں کو لعنت ملامت کرنے میں اپنی ذہنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکمران کون ہے؟ اور کیا کررہا ہے وہ تو مہنگائی اور بے روزگاری دور کرنے والی حکومت چاہتے ہیں۔ ہم جب بھی وزیراعظم عمران خان کا بیانیہ سنتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو جیلوں میں ڈال دوں گا تو ہمیں علامہ اقبال کا وہ خط یاد آنے لگتا ہے جو انہوں نے سید سلیمان ندوی کو لکھا تھا اور بڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہورہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا طرز عمل اور طرز حکمرانی نے قوم کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے جمہوریت فنا ہورہی ہے، عدلیہ اپنا وقار کھورہی ہے۔ ہماری عدلیہ ازخود نوٹس لینے میں خاصی مشہور ہوچکی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ عدلیہ نے عمران خان کو سات خون معاف کردیے ہیں۔