آٹے کا بحرا ن، نا اہلی کی انتہا

508

آٹے کا ملک گیر بحران جاری ہے ۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں تو سندھ میں پیپلزپارٹی مگر پورا ہی ملک آٹے کے سنگین بحران سے یکساں متاثر ہے ۔ آٹے کی قیمت ملک بھر میں روز ایک نیا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ مہنگا کرنے کے بعد آٹے کی مصنوعی قلت بھی پیدا کردی گئی ہے ۔ اس پر تحریک انصاف کا یہ بیانیہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ ملک میں آٹے کا کوئی بحران نہیں ہے ۔ اگر ملک میں آٹے کا کوئی بحران نہیں ہے تو پھر اس کی قیمتوں میں 25 روپے فی کلو تک کا اضافہ کیسے ہوگیا اور اب آٹا مارکیٹ ہی سے کیوں غائب کردیا گیا ہے ۔ جب سے عمران خان نیازی کی حکومت ملک میں آئی ہے ، اُس دن سے ملک بحرانوں کی زد میں ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری شروع کی گئی جس کی وجہ سے صارفین ہی بے قدری کا شکار ہوگئے ۔ عمران خان کے برسراقتدار آتے ہی پٹرول و گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ شروع ہوا ہے ، وہ اب تک تھمنے میں نہیں آیا ۔ بجلی کے نرخ ماہانہ بنیادوں پر بڑھائے جارہے ہیں تو اب گیس کی قیمتوں میں 214 فیصد اضافے کی خبر سنادی گئی ہے ۔ یعنی گیس کے نرخوں میں دگنا سے زاید اضافہ جو اطلاعات کے مطابق یکم فروری سے نافذ العمل ہوگا ۔گندم بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے اب تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بھی عجیب مذاق ہے کہ بلا سوچے سمجھے وفاقی حکومت نے پانچ لاکھ ٹن گندم ملک سے برآمد کرنے کی اجازت دے دی ۔ گزشتہ جون ہی میں جب ملک میں گندم کی قلت کے اشارے آنے شروع ہوگئے تھے تو وفاقی کابینہ نے گندم کی برآمد پر پابندی لگانے سے انکار کردیا۔ گندم کی برآمد پر پابندی پر عملدرآمد ستمبر میں اس وقت کیا گیا جب کھیت چگ کر چڑیاں اُڑ چکی تھیں ۔ اکتوبر سے ہی گندم کی قلت کا شور مچا کر بتدریج قیمتوں میں اضافہ کرنا شروع کردیا گیا تھا مگر جنوری میں تو گویا آٹے کی قیمت کو پر ہی لگ گئے ۔ نہ صرف آٹا بلکہ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ کردیا گیا ۔ اس کے جواب میں ذمہ دار افراد اور ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشیوںہی سے کام چلا رہے ہیں ۔ اب وزیر اعظم عمران خان نیازی نے جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کو تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا ٹاسک دیا ہے ۔ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار ہی گندم کی برآمد کے اسکینڈل کے مرکزی کردار تھے ، انہیں ہی اس کا علاج کرنے کا فریضہ بھی سونپا گیا ہے ۔ دفاعی حکمت عملی کے تحت گندم کے وافر ذخائر ملک میں رکھنے کی واضح پالیسی موجود ہے ، اس کے باوجود کیسے اور کیوں کر گندم کے گودام خالی کردیے گئے ، یہ اہم سوال ہے جس کی ذمہ دار وفاقی کابینہ بھی ہے جو اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے محض عمران خان نیازی کے ربر اسٹیمپ کا کام کررہی ہے ۔ پاکستانی قوم کے ساتھ یہ سفاکانہ مذاق ہی ہے کہ پہلے بلا سوچے سمجھے گندم برآمد کر دی گئی اور اب اس کی درآمد پربھاری زرتلافی دیا جائے گا۔ملک میں پہلے ہی زرمبادلہ کا بحران ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے بھاری سود پر قرضے لیے جارہے ہیں مگر اس خوفناک اسکینڈل کے کسی ایک بھی کردار کو کوئی سزا نہیں ملے گی ۔ اسی طرح گندم کی ذخیرہ اندوزی کرکے عوام سے اربوں روپے سمیٹنے والوں کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ عمران خان نیازی اور ان کی کابینہ کیا آٹے اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں گزشتہ جولائی کی سطح پر لاسکیں گی ۔ اس کا جواب بھی نفی میں ہے ۔جب عمران خان نیازی مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے اور حقیقی قیمتوں پر اشیائے صرف کی فراہمی عوام کو یقینی نہیں بناسکتے تو اقتدار کی کرسی پر انہیں بٹھانے والے سلیکٹروں کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ حکومت اور اس کے پس پشت ذمہ داروں کو نہ صرف گندم بلکہ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے ۔ محض ریٹیلرز پر چھاپے مارنے کے بجائے اصل ذمہ داروں کو سامنے لا کر انہیں قرار واقعی سزا دینی چاہیے مگر یہ سب کون کرے گا کہ ان سب کے ڈانڈے تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں جا ملتے ہیں ۔ حکمران طبقہ بھوکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک ریا ہے ۔ فردوس عاشق بحران کی ذمے داری سندھ حکومت پر ڈال رہی ہیں اور مراد علی شاہ ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں ۔ فیاض الحسن چوہان سرے سے بحرانوں سے انکاری ہیں ۔ خیبر پختونخوا حکومت کہتی ہے کہ کوئی بحران نہیں اور وہاں آٹے کے نام چوکر کھلایا جا رہا ہے ۔