فوجی بوٹ کی پر اسرار رونمائی

411

پچھلے دنوں وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے اے آر وائی ٹی وی چینل پر فوجی بوٹ کی رو نمائی پر ایسا ہنگامہ برپا ہوا کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان نے ان پر کسی ٹیلی وژن چینل پر بحث میں حصہ لینے پر دو ہفتہ کی پابندی عاید کردی اور دوسرے طرف پیمرا نے اے آر وائی کے اینکر کاشف عباسی پر اپنا پروگرام پیش کرنے اور کسی اور پروگرام میں حصہ لینے کی ممانعت کردی۔ لیکن اس ہنگامہ کے شور میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فیصل واوڈا نے یہ بوٹ دراصل کس مقصد کے لیے پیش کیا تھا بہت سے لوگ صرف یہ قیاس آرائی کر کے رہ گئے کہ مسلم لیگ نون نے اس بوٹ کو چاٹ کر چمکایا ہے۔ معاملہ چونکہ فوجی بوٹ کا تھا اس لیے اس سے زیادہ کسی کی وضاحت کی جرأت نہیں ہوئی۔
عربوں کی دیکھا دیکھی برصغیر میں بھی یہ روایت رہی ہے کہ دور کسی شخص پر جس کے قریب پہنچنا مشکل ہو اپنے غصہ کے اظہار کے لیے جوتا کھینچ کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 2008 میں ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح عراقی صحافی منتظر زیدی نے بغداد میں صدر بش پر یکے بعد دیگرے اپنے دو جوتے پھینک کر ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ زیدی کا نشانہ خطا ہوا اور وہ اپنے دونوں جوتوں سے بھی محروم ہو گئے اور جیل کی ہوا الگ کھانی پڑی، لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اے آروائی اسٹوڈیو میں تحریک انصاف کے الزامات اور دشنام طرازیوں کا نشانہ بننے والے، نہ تو نواز شریف تھے اور نہ آصف علی زرداری کہ فیصل واوڈا ان کو بوٹ کا نشانہ بناکر دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہوں۔ لہٰذا یہ آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وفاقی وزیر یہ بوٹ کسی کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں لائے تھے۔
امریکا، لاطینی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ٹیلی فون اور بجلی کے تاروں پر جوتوں کو فیتوں سے باندھ کر لٹکانے کی رسم بہت پرانی ہے۔ داد گیر اور دھونس دینے والے گروہ اپنے سے کمزوروں کو نیچا دکھانے کے لیے اپنے مخالفین کے جوتے اچھالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ جوتے ٹیلی فون اور بجلی کے تاروں پر لٹکا دیے جائیں۔ اونچے تاروں پر جوتوں کو ٹانگنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس امر کی کھلم کھلا نشاندہی کر دی جائے کہ یہ علاقہ منشیات کی خریدو فروخت کا گڑھ ہے تاکہ منشیات کے متلاشیوں کو زیادہ پریشانی نہ ہو۔ شکر ہے کہ فیصل واودا کا بوٹ اے آر وائی کی میز پر برجمان تھا کسی تار پر نہیں لٹکا ہوا تھا اور یہ واضح ہوگیا کہ فیصل واوڈا کے بوٹ کا منشیات کی خریدو فروخت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔
بعض ملکوں میں فوج کے پرانے بوٹ جو فوجی تربیت کے خاتمہ کے بعد کسی قابل نہیں رہتے انہیں پیلے رنگ میں ڈبو کر درختوں پر ٹانگ دیے جاتے ہیں۔ فیصل واوڈا کے بوٹ سے یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ فوج کا پرانا بوٹ ہے یا حاضر سروس فوجی بوٹ ہے۔ بعض برادریوں میں جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کا جوتا درخت پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ جب اس شخص کی روح واپس آتی ہے تو اسے زمین پر چلنے اور جنت تک پہنچنے کے لیے جوتے کی سہولت آسانی سے میسر آجائے۔ بعض ملکوں میں گھروں کے سامنے جوتے تارون میں اس لیے لٹکائے جاتے ہیں تاکہ گھروں کو بد روحوں سے محفوظ رکھا جائے۔ میرا نہیں خیال کہ فیصل واوڈا بد روحوں کو بھگانے کے لیے یہ بوٹ ساتھ لائے تھے بلکہ جس شان سے انہوں نے بوٹ کو سر محفل میز پر سجایا تھا، اس سے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ جوتے کو ایک نئی عزت بخش رہے تھے، عام جوتے کو نہیں بلکہ فوجی بوٹ کو۔ ویسے بوٹ کی یہ پر اسرار رونمائی آدھی رہی کیونکہ صرف ایک بوٹ کی رونمائی ہوئی دوسرے پیر کا بوٹ کہاں تھا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ فیصل واوڈا صرف ایک ہی بوٹ کیوں لائے دوسرے پیر کا بوٹ کہاں تھا؟ کاش کہ فیصل واوڈا دو ہفتہ کی پابندی کے خاتمہ کے بعد یہ جواب دے سکیں کہ ان کا اصل مقصد بوٹ لانے کا کیا تھا اور وہ بھی صرف ایک پیر کے بوٹ کی اس پر اسرار لنگڑی رونمائی کا مقصد کیا تھا۔ میرے ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ بہت سے دانا لوگ فیصل واوڈا کا یہ بوٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا ملک گیر نیلام کیا جاسکے اور بھاری رقم بٹور سکیں۔