فاتح کے نقش قدم

570

’’یا تو میں قسطنطنیہ لے لوں گا یا قسطنطنیہ مجھے لے لے گا‘‘۔
یہ وہ آواز تھی یورپ جسے آج تک نہیں بھولا۔ سلطان محمد فاتح کی آواز۔ فاتح قسطنطنیہ کی آواز۔ انسانی تاریخ کے چند عظیم حکمرانوں میں سے ایک، 21سالہ نوجوان خلیفہ، یورپ آج تک جس کی مثال پیش نہ کرسکا۔
قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح ایک قلعہ کی تسخیر نہیں تھی نہ ہی یہ ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے بادشاہ کے اقتدار کا آغاز تھا۔ یہ تاریخ کے ایک باب، ایک عہد، کا خاتمہ اور دوسرے کا آغاز تھا۔ اس فتح کے ساتھ ہی 27قبل مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر تقریباً پندرہ صدیوں (1480برس) تک برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی۔ دوسری جانب خلافت عثمانیہ نے اگلی چار صدیوں تک تین بر اعظموں ایشیا، یورپ اور افریقا پر انتہائی شان سے حکومت کی۔
استنبول کی فتح دنیا کی عسکری تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جسے وہ آج بھی حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع استنبول یا قسطنطنیہ یورپ کی فتوحات کا دروازہ تھا۔ مثلث نما شہر۔ جس کے دو اطراف سمندر ہے۔ شمال میں شاخ زریں کی خلیج واقع ہے جو آبنائے باسفورس کے ساتھ قسطنطنیہ کے ساتھ کئی میل تک چلی گئی ہے۔ جنوب میں بحیرہ مر مریںہے۔ شاخ زریں کی شکل سینگ نما ہے۔ دھوپ میں پانی کا رنگ سنہرا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسے گولڈن ہارن golden horn کہتے ہیں۔ شاخ زریں کے مقام داخلہ پر بازنطینی عیسائی حکمرانوں نے ایک زنجیر نصب کر رکھی تھی جس کی وجہ سے بندرگاہ میں وہی جہاز داخل ہوسکتے تھے جسے وہ چاہتے تھے۔
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے پہلے سلطان نے اپنے علاقوں سے تمام چھوٹی بڑی بغاوتیں اور ہنگامے ختم کیے۔ ہنگری کے بادشاہ سے صلح کی۔ امیر کرمانیہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ قسطنطنیہ تک پہنچنے کے تمام راستوں اور علاقوں پر قبضہ یقینی بنایا۔ اس کے بعد سلطان نے قسطنطنیہ سے پانچ میل دور یورپی ساحل پر ایک مضبوط ترین قلعہ بنوایا۔ یہ قلعہ 1452 کے موسم سرما سے پہلے تیار ہوگیا۔ اس قلعے میں سلطان نے ڈیڑھ لاکھ فوج جمع کی۔
قسطنطنیہ پر بری فوج کا حملہ صرف مشرق سے ممکن تھا۔ اس طرف شہر کی حفاظت تین دیواروں کی فصیل کررہی تھی۔ اندرونی دو دیواریں حد درجہ مضبوط تھیں۔ ہر دیوار کا درمیانی فاصلہ 60فٹ تھا۔ دوسری اور تیسری دیوار کے درمیان 100فٹ گہری خندق بھی تھی۔ ان دیواروں کی موجودگی میں قسطنطنیہ کی فتح تمام حملہ آوروں کے لیے ایک خواب تھی۔ ان دیواروں کی تسخیر کے لیے تو پوں کی گولہ باری کی ضرورت تھی۔ توپوں کا استعمال صرف ترک کرتے تھے۔ سلطان نے اندازہ لگا یا کہ پرانی تو پیں اس مقصد کے حصول کے لیے ناکام رہیں گی۔ اربان Urban نامی ایک عیسائی انجینئر سلطان کے ایما پر بازنطینی ملازمت چھوڑ کر سلطان کے پاس آگیا۔ تمام سہولتوں کی فراہمی کے بعد اس نے سلطان کو ایک جدید ترین توپ بنا کردی جس کے گولے کا قطر ڈھائی فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے تیزی سے مارکرنے والی کئی توپیں بھی سلطان کو بنا کر دیں۔ ان توپوں نے قسطنطنیہ کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تیاریوں کے علاوہ سلطان نے 180بحری جہازوں کا بیڑہ بھی تیار کروایا۔ سلطان دو سال تک تیاریوں میں مصروف رہا۔ تب سلطان نے قسطنطنیہ پر حملے کا فیصلہ کیا۔
سلطان محمد فاتح نے 6اپریل 1453 بمطابق 26ربیع الاول 857 ہجری میں قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کیا۔ ابتداً مسلم افواج قلعے کا دروازہ توڑنے اور دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ توپوں سے گولہ باری بھی ہوتی رہی لیکن تمام بے سود۔ اس موقع پر سلطان نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا اور ایک عجیب فیصلہ کیا۔ سمندر کی طرف سے حملے کا فیصلہ کیا۔
بحری حملہ کرنے کا صرف ایک راستہ تھا۔۔ گولڈن ہارن۔ سلطان استنبول پہنچا تو گولڈن ہارن کے دہانے پر زنجیر چڑھادی گئی۔ باسفورس میں مصالحہ ڈال کر سمندر کو آگ لگادی۔ سلطان نے ایک حیران کن منصوبہ بنایا۔ سلطان نے اپنی 80ہزار افواج کو حکم دیا کہ ایشیائی ساحلوں کے پہاڑوں پر موجود گھنے جنگل کاٹیں۔ لکڑی کے تختے بنائیں۔ ان تختوں کو پہاڑ کی ڈھلوانوں پر لگائیں۔ تختوں پر جانوروں کی چربی کی موٹی تہہ جمائیں۔ سلطان کے حکم کے مطابق یہ تختے پہاڑ کی چوٹی تک نصب کردیے گئے۔ اس کے بعد سلطان نے تختے پہاڑ کی دوسری طرف گولڈن ہارن تک لگانے کا حکم دیا۔ سلطان کے حکم پر ان تختوں پر بھی جانوروں کی چربی لگا کر انہیں بے حد چکنا اور رپٹنا بنادیا گیا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ بحری جہازوں کو تختوں پر سرکا کر پہاڑ کی چوٹی تک لایا جائے۔ اس کے بعد انہیں رسوں کے ساتھ باندھ کر پہاڑ کی دوسری طرف سمندر میں اتاردیا جائے۔ اس طویل اور مشکل ترین کام کے لیے سلطان نے صرف ایک رات کی مہلت دی۔ سلطان کے اس حکم کی تعمیل بھی ہوئی۔ اگلی صبح قسطنطنیہ کے لوگوں کی آنکھ کھلی تو گولڈن ہارن سلطان محمد فاتح کے بحری جہازوں سے بھرا ہوا تھا۔
ایک طرف بحری افواج کا حملہ دوسری طرف توپوں کی گولہ باری۔ سات ہفتوں تک مسلسل گولہ باری سے دیواروں میں شگاف پڑ گئے۔ 29مئی 1453 بمطابق 20جمادی الاول 857 ہجری بعد نماز فجر جس جگہ شگاف تھا وہاںگھمسان کارن پڑا۔ سلطان محمد فاتح نے خود کمان سنبھال کر ایک تازہ حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنا کارگر ثابت ہوا کہ عثمانی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ وہ شہر 800سو برس سے جسے فتح کرنا ایک خواب تھا۔ سلطان محمد فاتح کے عزم نے اس ناممکن کو ممکن کردکھایا۔
قسطنطنیہ کی فتح اللہ سبحانہ تعالیٰ پر ایمان اور اس ایمان کی بنیاد پر قائم عزم اور ارادے کی فتح تھی۔ آٹھ سو برس کی پیہم ناکامیوں کے بعد سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو ایک ناممکن فتح ڈکلیئر نہیں کیا۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جو قسطنطنیہ کی سرحد پار کرے گا مسلمانوں کا دشمن ہوگا، انہوں نے گانے اور ڈرامے تخلیق نہیں کیے، قلعے کی مضبوطی سے نہیں ڈرایا۔ ملت اسلامیہ کے حکمران ان بزرگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے زمانے کی ٹھکرائی ہوئی قوم کو ایک مرکزی خلافت کے نیچے جمع کیا، اس وقت کی دو عظیم سپر پاورز کو شکست دی۔ انہوں نے قوم کو امید دلائی، آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا جب کہ آج ہمارے حکمران ہمیں امریکی ڈرونز اور امریکی ٹیکنالوجی سے ڈرا رہے ہیں، یہ تاثر دیتے نہیں تھک رہے کہ امریکا کے سامنے کھڑا ہونا ناممکن ہے، کشمیر پر بھارتی قبضے کو ختم کرانے کے لیے جہاد کی بات کی جاتی ہے تو کانپ اٹھتے ہیں، بھارت کی مضبوط اور اپنی کمزور معیشت کا بہانہ بناتے ہیں، اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خاتمے سے زیادہ اس سے دوستی کے خواہاں ہیں۔ یہ وہ حکمران ہیں جن پر حکمرانی کی محبت، نفسانی خواہشات، اخلاق باختہ عادتیں اور شیطانی وسوسے غالب ہیں۔
قسطنطنیہ کے بارے میں سیدا لمرسلین سیدنا محمد عربیؐ کا فرمان تھا ’’یقینا تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے۔ وہ امیر بھی کیا باکمال ہوگا وہ لشکر بھی کیا با کمال ہوگا‘‘۔ آپؐ نے روم کی فتح کی بشارت بھی دی تھی آپؐ نے ہند کے جہادکی خوش خبری بھی دی تھی اور میرے آقا سیدالمرسلین محمدؐ نے خلافت دوبارہ قائم ہونے کی نوید بھی سنائی تھی۔ آپؐ کے ارشاد کے بعد جس میں کوئی شک نہیں۔ صراط مستقیم ایک ہی ہے، دنیا میں نافذ ہونے کے قابل صرف ایک نظام ہے۔ اسلام کا نظام، خلافت کا نظام۔ یہ نظام نافذ ہوکر رہے گا بس سلطان محمد فاتح کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس جوش، جذبے اور طوفان کی ضرورت ہے جو سلطان محمد فاتح کے سینے میں اٹھا تھا۔ کیا ہی مبارک لوگ ہوں گے جو ختم المرسلینؐ کی بشارتوں کی تکمیل کریں گے۔