بات چیت کمزور سے نہیں ہوا کرتی

340

ملکوں کی سطح پر کمزوری کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ خود کفیل نہ ہونا، اندرونی حالات کا غیر مستحکم ہونا، معاشی لحاظ سے بد حال ہونا، خارجی لحاظ سے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی صورت حال کا موجود ہونا یا دوسرے ممالک کے ہاتھوں بری طرح مقروض ہونا جیسے بڑے بڑے معاملات کسی بھی ملک کی آزادی و خودمختاری کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن جایا کرتے ہیں۔ ان سب بیماریوں سے بڑھ کر جو بیماری ملک کو کمزور سے کمزور تر کر کے رکھ دیتی ہے وہ اس کا بزدل اور ڈر پوک ہونا ہوتا ہے۔ اول الذکر جن جن کمزوریوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اگر کسی ملک میں موجود بھی ہوں لیکن اگر اس ملک کے عوام، حکومت اور عسکری طاقت بزدل اور ڈرپوک نہ بھی ہوں تو دنیا میں اس ملک کا ایک الگ ہی وقار اور مقام ہوتا ہے لیکن مذکورہ ساری کمزوریوں کے ساتھ ساتھ اگر بزدلی کا عنصر بھی شامل ہو جائے تو خواہ وہ ملک کتنا ہی خود کفیل، معاشی لحاظ سے خوشحال، اندرونی استحکام میں مثالی اور کسی بھی دوسرے ملک کا مقروض نہ بھی ہو، وہ نہ تو دنیا میں با وقار بن کر ابھر سکتا ہے اور نہ ہی آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا میں اپنا کوئی مقام حاصل کر سکتا ہے۔
مسلمانوں کے چند ممالک کو چھوڑ کر سارے ممالک بلا شبہ نہ صرف اندرونی حالات کے لحاظ سے مستحکم ہیں بلکہ وسائل کے لحاظ سے وہ اتنے مالا مال اور خوشحال ہیں کہ وہ کئی ممالک کی ان کے برے وقت میں مالی معاونت بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان تمام خود مختاریوں کے باوجود بھی وہ دنیا میں سر اٹھا کر جینے میں اس لیے کامیاب نہیں کہ بنیادی طور پر وہ مال و دولت اور عزت و جاہ کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ موت کا معمولی سا خوف بھی ان کو جان سے مار دینے کے لیے کافی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی بیرونی طاقت کے سامنے ڈٹ جانے سے اس حد تک گریزاں ہو جاتے ہیں کہ ان کے قدموں میں جھک جانے میں لمحہ بھی نہیں لگاتے۔
پاکستان ہر اس کمزوری کا شکار ہے جن کا ذکر بالائی سطور میں کر دیا گیا ہے۔ اس کے پاس ایک ایسی تربیت یافتہ فوج ہے جو دنیا کی بہترین فوج میں شمار کی جاتی ہے اور سب سے زیادہ فخر اور طاقت کی بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے جو بلا شبہ اس کی عسکری مضبوطی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس کا خود کفیل نہ ہونا، مقروض ہونا، اندرونی عدم استحکام کا شکار ہونا، پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں گھرا ہونا، معاشی طور پر بد حال ہونا اور خارجی تعلقات کے اعتبار سے بہت خوشگوار نہ ہونا اس کی طاقت اور قوت کو صفر کر کے رکھے ہوئے ہے اور وہ بہت سارے معاملات میں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہوئے بے اعتمادی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ بھارت مسلمانوں اور خاص کر کشمیریوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے وہ یقینا قابل مذمت اور مجرمانہ ہے۔ کشمیر 1947 سے ہی ایک متنازع وادی رہی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قسمت کا خود فیصلہ کریں۔ بھارت نے 72 برس سے اس پر ناجائز قبضہ کیا ہوا تھا لیکن اب تو اس نے قبضہ کی ہوئی پوری وادی کو قانونی طور پر اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے بلکہ لاکھوں ایسے افراد جو اس ناجائز قبضے کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنا چاہتے ہیں ان کو غدار قرار دیکر موت کے کھاٹ بھی اتارنا شروع کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر شہروں میں آواز احتجاج بلند کرنے والے بھی ظالمانہ کارروائیوں کے شکار ہو رہے ہیں۔
ایک جانب بھارت کا یہ ظالمانہ چہرہ دنیا کے سامنے ہے تو گزشتہ پانچ ماہ سے بھی زیادہ کشمیر میں لگائے جانے والے کرفیو کی وجہ سے پورا کشمیر ایک جیل بن چکا ہے اور لوگوں کی زندگیاں موت کی تصویر بن کر رہ گئی ہیں۔
کشمیر کی صورت حال ایک جانب اتنی کشیدہ ہے تو دوسری جانب پاکستان جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اور جس کے پاس دنیا کی پانچ چھ بہترین افواج میں سے ایک فوج ہے، وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے بہیمانہ سلوک پر بے بسی کی تصویر محض اس لیے بنا ہوا ہے کہ وہ ان ساری کمزوریوں کا حامل ہے جو دنیا میں کسی بھی ملک کو اس قابل نہیں رہنے دیتیں کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کر سکے جو ایک آزاد اور خود مختار ملک کو کرنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی مسلسل جاری ہے لیکن ہر معاملہ محض رونے دھونے اور چیخنے چلانے سے حل نہیں ہوا کرتا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی ملک بھی کسی کی خاطر کبھی جنگ نہیں لڑ سکتا البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ (خدا نخواستہ) جنگ چھڑ جانے کی صورت میں ممد و مدد گار بن جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت کشمیر میں جو کچھ بھی کر رہا ہے، دنیا اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کا جو اجلاس طلب کیا ہے، کشمیر کا معاملہ اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس اجلاس کے طلب کیے جانے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ کشمیر کی صورت حال نہایت سنگین ہے۔ عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ معاملہ ہے اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں ترجمان دفترخارجہ عائشہ فاروقی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ سلامتی کو نسل کا اجلاس پاکستان کی درخواست پر ہو رہا ہے، ویٹو ممالک نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر ضرور شامل ہوگا اور وہاں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا جائے گا لیکن کیا اس اجلاس میں کوئی حتمی فیصلہ بھی ہوگا؟۔ جب بھی دنیا میں اس قسم کی کوئی خطرناک صورت حال پیدا ہوتی ہے، اقوام متحدہ کے ہر فورم پر کسی نہ کسی اجلاس کا طلب کیا جانا جیسے ایک ایسی روایت بن کر رہ گئی جس کا انعقاد ہوتا ہے، لوگ جمع ہوتے ہیں، کچھ بحث ہوتی ہے، کچھ قراردادیں پیش کی جاتی ہیں اور پھر اس کے بعد سب نیپال کے جنگلو میں جاکر مر جایا کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا پاکستان کا سلامتی کونسل میں آواز اٹھائے جانے پر ہی خوش ہوجانا کافی ہے؟، یہ ہے وہ اصل سوال جو حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے اور ساتویں ایٹمی ملک کے سربراہوں سے کیا جانا چاہیے۔
جہاں تک اقوام متحدہ کے کسی فورم پر آواز اٹھائے جانے کا معاملہ ہے وہ تو ایسا ہی ہے جیسے نقار خانے میں توتی کی آواز۔ کیا 72 سال قبل کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں نہیں آگیا تھا؟، کیا میانمر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو اقوام متحدہ میں نہیں اٹھایا گیا تھا؟، کیا ایغور (چین) کے مسلمانوں کے ساتھ چین کا ظالمانہ سلوک اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں نہیں؟، کیا فلسطین میں ہونے والی درندگی اقوام متحدہ میں درج نہیں؟۔ سوال اقوام متحدہ میں کسی مسئلہ کے متعلق قراردادوں کے پیش کیے جانے کا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی کوئی قوم بھی اس قسم کی کسی بھی جارحیت اور درندگی کو ختم کرانے کے لیے، اور خاص طور سے وہ وحشت جو دنیا مسلمانوں یا مسلمان ممالک کے خلاف برپا کیے ہوئے ہو، رکوانے میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے اٹھی بھی ہو اور اسے کامیابی سے ہمکنار بھی کیا ہو۔ محض آوازیں اٹھا دینا ہی تو کسی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتا۔
وزیر اعظم پاکستان کا یہ فرمانہ کہ مسائل کا حل جنگوں سے نہیں بات چیت سے حل ہوا کرتا ہے، ٹھیک ہی ہے مگر کیا کبھی کوئی طاقت کسی کمزور کو اس قابل سمجھتی ہے کہ اس سے بات چیت کی جائے؟۔ کیا کوئی آقا کسی کو اپنا غلام مذاکرات کرکے بناتا ہے؟۔ کیا دنیا میں جتنے فراعین گزرے ہیں انہوں نے اپنے اپنے ادوار کے موساؤں سے مذاکرات کیے ہیں؟۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر جنگ کا اختتام بالآخر مذاکرات پر ہی ختم ہوتا ہے لیکن وہ سارے مذاکرات یک طرفہ ہوتے ہیں اور اس میں جو بھی فیصلہ لکھا جاتا ہے وہ غالب ہی کی جانب سے لکھا جاتا ہے، مغلوب تو اپنی پسپائی کے بعد چند مراعات حاصل کر لینے میں ہی کامیاب ہو پاتا ہے اور وہ بھی بطور احسان۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر ایجنڈے میں شامل ہونا بے شک ایک خوش آئند بات ہی سہی لیکن پاکستان کو کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے محلے والے کسی کے دکھ درد میں رسماً شامل ہو جایا کرتے ہیں۔ مسئلہ دکھ درد کا ہو یا بحرانوں کا، ہر ملک کو ان سے خود ہی نمٹنا ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اگر یہ چاہتا ہے کہ اس کے چاروں جانب پھیلے جنگوں کے سائے اور ملک کے اندر بحرانوں کی دھند سمٹ جائے اور مناظر اجلے اور پْر سکون دکھائی دینے لگیں تو سارے خوف، ڈر اور سہم دل و دماغ سے نکال کر بہادروں کی طرح میدان عمل میں کودنا ہوگا اور اقوام عالم پر اپنا انحصار ختم کرنا ہوگا پھر دنیا پر دھاک بھی بیٹھے گی اور غالب مغلوب ہوکر بات چیت کے لیے تیار و آمادہ نظر آئیں گے ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ بات چیت کبھی کمزوروں سے نہیں، زور آوروں سے کی جاتی ہے۔