برطانیہ کا شاہی خاندان بکھر رہا ہے؟

390

چوراسی سال بعد برطانیہ کا شاہی خاندان پھر ایک بار سنگین بحران سے دوچار ہے۔ 1936میں برطانیہ کے شاہ ایڈورڈ ہشتم مطلقہ امریکی خاتون ویلس سمپسن سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن برطانوی حکومت نے مذہبی، اخلاقی اور سیاسی بنیاد پر اس شادی کی مخالفت کی تھی، اس کے باوجود شاہ ایڈورڈ ہشتم ویلس سمپسن سے شادی کرنے پر اٹل تھے اور آخر کار ویلس سمپسن کی خاطر انہوں نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی اور وطن چھوڑ کر فرانس نقل وطن کر گئے۔ ملکہ ایلزبتھ کے چھوٹے پوتے پرنس ہیری اور افریقی اور امریکی ملی جلی نسل کی مطلقہ میگھن مرکل کا بحران اتنا سنگین نہیں بلکہ ڈیڑھ سال قبل ان کی شادی ونڈسر کیسل میں بڑے دھوم دھام سے ہوئی تھی اور شاہی بگھی میں دولہا دلہن کے دیدار کے لیے ہزاروں افراد سڑک پر نکل آئے تھے۔ لیکن شادی اور ایک بیٹے آرچی کی ولادت کے بعد دونوں برطانوی میڈیا کی نسل پرستی کا نشانہ بننا شروع ہوگئے۔ میڈیا کے بعض اخبارات نے جن میں روزنامہ سن، ڈیلی میل اور مرر پیش پیش تھے منظم طور پر یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ ہیری اور میگھن کو شاہی خاندان نے دل و جان سے قبول نہیں کیا ہے اور میگھن شاہی خاندان میں کھپ نہیں رہی ہیں۔
پرنس ہیری نے شاہی محل کے مشیروں کے مشورہ کے خلاف برطانوی میڈیا کے اس تعصبانہ رویہ پر سخت احتجاج کیا تھا اور ڈیلی میل کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی شروع کی تھی۔ پرنس ہیری نے کئی بار کھلم کھلا اپنے اس دکھ کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ میڈیا کے تعاقب کی وجہ سے اپنے والدہ شہزادی ڈیانا سے محروم ہو گئے تھے اور اب میڈیا ان کی اہلیہ میگھن کا اسی طرح سے جان لیوا تعاقب کر رہا ہے۔ اور دراصل اسی وجہ سے پرنس ہیری اور میگھن نے شاہی محل کے بندھنوں سے آزاد ہو کر آزادانہ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شاہی الاونس ان کی راہ میں رکاوٹ بنے اور میڈیا کو یہ طعنہ دینے کا موقع ملے کہ وہ عوام کے ٹیکسوں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ پرنس ہیری نے شکایت کی ہے کہ جب سے انہوں نے شاہی خاندان کے چنگل سے آزاد ہونے کے بارے میں غور کرنا شروع کیا میڈیا نے جن میں روزنامہ سن اور مرر پیش پیش تھے ان کے انٹرنیٹ اور موبائل کو ہیک کرنا شروع کردیا تھا۔ اور پچھلے چند ہفتوں کے دوران سیکڑوں ٹوئٹس میں ان دونوں پر نسل پرستانہ حملے شروع ہوگئے۔ ایک ٹوئٹ میں میگھن کو ’’بندروں کے جزیرہ کی ملکہ‘‘ کہا گیا۔ ہیری اور میگھن کے خلاف نسل پرست مہم کے سلسلے میں بکنگھم محل پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے نسل پرست میڈیا کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا بلکہ مصلحتوں کی خاطر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ بہت سے لوگوں کو اس پر حیرت ہوئی کہ ہیری اور میگھن کو شاہی خاندان سے الگ ہونے پر ملکہ ایلزبتھ نے بڑی کڑی سزادی ہے۔ ہیری اور میگھن ہز رائل ہائی نس اور ہر رائل ہائی نس کا خطاب استعمال نہیں کر سکیں گے۔ یہی نہیں شادی کے بعد ونڈسر میں ان کے مکان کو آراستہ کرنے پر جو 24لاکھ پونڈ خرچ آیا تھا وہ ان کو واپس کرنا ہوگا اور شاہی خاندان کی حیثیت سے انہیں جو شاہی الاونس ملتا ہے وہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ پرنس ہیری شاہی فرائض سے دست بردار ہونے کے بعد فوجی خطابات کیپٹن جنرل آف رائیل مرین سے بھی محروم ہو جائیںگے۔
شاہی خاندان کے چنگل سے آزاد ہونے کے بعد بھی میڈیا نے ہیری اور میگھن کو نہیں بخشا۔ بعض اخبارات نے یہ سرخی لگائی ہے کہ ملکہ نے میگھن کو برطانیہ سے نکال باہر کر دیا۔ چند اخبارات نے لکھا ہے کہ ہیری اور میگھن کو وہ تین کروڑ بیس لاکھ پونڈ بھی واپس کر دینے چاہیں جو ان کی شاہانہ شادی پر خرچ ہوئے تھے۔ بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ جس طرح ہیری اور میگھن نے شاہی خاندان سے رشتہ منقطع کر کے کینیڈا کی راہ لی ہے اس سے شاہی خاندان کے بکھرنے کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آتا ہے۔ جہاں تک ملکہ ایلزبتھ کے دوسرے بیٹے پرنس اینڈریو کا تعلق ہے وہ بھی بڑی حد تک شاہی خاندان سے لاتعلق ہوگئے ہیں۔ جب سے ان پر الزام ہے کہ ان کے امریکی سرمایہ کار جیفری اپسٹین سے گہرے روابط تھے جنہیں کم سن لڑکیوں سے جنسی تعلقات کے جرم میں سزا ہوئی تھی اور جنہوں نے جیل میں خود کشی کر لی تھی، ان کو شاہی فرائض سے فارغ کر دیا گیا ہے اور وہ اس وقت کٹی پتنگ بنے ہوئے ہیں۔ شاہی خاندان کے اس تازہ بحران کے بعد ان افراد کو بلا شبہ تقویت ملے گی جو برطانیہ میں بادشاہت کے خاتمہ اور برطانیہ کو جمہوریہ بنانے کا ایک عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن برطانیہ کے عوام اتنے کٹر شاہ پرست ہیں کہ برطانیہ کی بادشاہت کو فی الحال کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔