وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن اور مافیاز کو ختم کرنے کے لیے آخری حد تک جائوں گا۔ چناں چہ اس کام کے لیے وزیراعظم نے ایک حکومتی وفد سندھ اور وفاق کی پرانی مافیا کو زندہ کرنے کے لیے مذاکرات کی غرض سے متعین کردیا ہے اور یہ وفد ایم کیو ایم کو منانے کے لیے طرح طرح کی پیشکش کررہا ہے۔ دوسری طرف مافیا نے اربوں روپے اور دو وزارتیں مانگی ہیں۔ مافیاز سے لڑنا آسان نہیں فی الحال تو حکومت نے متحدہ کے مطالبات سن کر ان کے بند دفاتر کھولنے کے لیے دفاتر کی قانونی دستاویزات طلب کرلی ہیں جو ظاہر ہے متحدہ کے پاس نہیں۔ لہٰذا مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہوگیا ہے لیکن مافیاز اور کرپشن سے لڑنے کے دعویدار وزیراعظم اس سوال کا جواب ضرور دیں کہ مافیاز سے مذاکرات کرکے ان سے کس طرح لڑاجاتا ہے۔ ایک اطلاع ہے کہ متحدہ کا سارا زور اپنے دفاتر کھلوانے پر ہے لیکن اس کا گرین سگنل ابھی نہیں ملا ہے۔ وزارتیں تو وہ کسی بھی مرحلے پر لے لے گی۔ متحدہ کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول کے وزارت چھوڑنے کے فیصلے اور حکومت سے تعاون جاری رکھنے کے اعلان پر کچھ بات کرنے سے قبل وزیراعظم کے عمل پر بات ہونی چاہیے جو ایم کیو ایم کو فاشسٹ تنظیم کہتے تھے اُس وقت بھی ڈاکٹر خالد مقبول اس فاشسٹ تنظیم کا حصہ تھے اور آج جب کہ الطاف حسین اس کے منظر سے غائب ہیں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔ تو عمران خان ہی کو بتانا ہوگا کہ وہ فاشسٹ تنظیم کو کس وجہ سے اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ کیا سندھ میں حکومت بنانا ان کا مقصد ہے؟ یا کوئی اور بات؟۔
متحدہ قومی موومنٹ کے وزیراعظم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے نہایت خوبصورتی سے یہ کہہ کر ٹانکا جوڑے رکھا کہ حکومت سے تعاون جاری رہے گا۔ یہ کام پرانی ایم کیو ایم بھی بڑی خوبی سے کرتی تھی۔ دوسری خوبی یہ ہوئی کہ فروغ نسیم کو انہوں نے ایم کیو ایم کے کوٹے کا وزیر ہی تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ وہ چاہیں تو وزیر رہ سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ٹیم کو فیصلے سے آگاہ کردیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم نے تو واضح کہا تھا کہ پاکستان میں کوئی وزیر اپنی مرضی سے وزیر نہیں رہ سکتا بلکہ وزیراعظم بھی نہیں رہتا۔ فروغ نسیم تو کسی خاص کوٹے پر کابینہ میں ہیں وہ جنرل پرویز کے کوٹے پر بھی تھے اور اب بھی اسی کوٹے پر وزیر ہیں۔ پاکستان میں یوں تو ہر سیاسی جماعت جو حکومت کے ایوانوں میں آتی جاتی رہتی ہے اس کی یہ خصوصیت ہے کہ ہر مرتبہ نیا کھاتہ کھولا جاتا ہے۔ ان کی ماضی کی کسی غلطی پر کبھی کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) دونوں کا یہی عالم ہے۔ لیکن ایم کیو ایم اس حوالے سے زبردست تاریخ رکھتی ہے۔ اس نے جتنے وعدے اور جتنے دعوے کیے ان میں سے کوئی پورا نہیں کیا لیکن اتنا شور بھی نہیں مچا جتنا پی ٹی آئی کے یوٹرن پر مچتا ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بڑی معصومیت سے شکوہ کیا ہے کہ 16 ماہ میں کوئی کام نہیں ہوا۔ آپ ملاحظہ فرمائیں۔ 1987ء سے جو جماعت مرکز صوبے، بلدیہ ہر جگہ موجود رہی ہے۔ طویل ترین عرصے تک ان کا گورنر رہا ہے۔ اس نے کراچی و حیدر آباد کو کیا دیا۔ اگر ایم کیو ایم کا حساب کتاب کھولا جائے تو کراچی حیدر آباد کے عوام اور نتیجتاً پورا ملک خسارے میں نظر آئے گا۔
حیدر آباد و کراچی کو کوٹا سسٹم سے نجات دلانا، مہاجروں کو روزگار دلوانا، حیدر آباد میں یونیورسٹی قائم کرنا، مہاجروں کو شناخت دلوانا اور روزگار دلوانا شامل تھا۔ کراچی کو صاف ستھرا شہر بنانا اور سرکلر ریلوے بحال کرنا بھی ان کے منشور میں شامل تھا۔ لیکن برسوں اپنا میئر رکھنے اور مسلط کردہ سٹی ناظم کے باوجود کراچی میں افغانی صاحب اور نعمت اللہ خان کے کیے ہوئے کاموں کو بھی تباہ و برباد کردیا گیا۔ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو بھی اسی متحدہ کے دور میں نہ صرف تباہ بلکہ بند بھی کیا گیا۔ نعمت اللہ خان کی گرین بس کو غائب کردیا گیا۔ کے III کو رکوایا گیا۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کو گورنر اور مرکزی حکومت کے دبائو کے تحت رکوایا گیا اور سب سے بڑھ کر اسی ایم کیو ایم کی موجودگی میں صوبائی حکومت کئی محکموں کو بلدیہ سے چھین کر صوبے کے اختیار میں لے گئی۔ یا تو نااہلی ہے یا پھر قیمت وصول کی گئی۔ یہ تو وہ سب ہے جس پر عوام کو احتساب کرنا چاہیے لیکن پولیس، فوج، عدالتیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کررہے ہیں۔ 90 پر چھاپے مارے گئے متحدہ کے دفاتر سے اسلحہ کی بھاری مقدار برآمد ہوئی۔ کبھی بھارتی اسلحے کا دعویٰ کیا گیا لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ اس الطاف حسین کے نامزد کردہ لوگ اسمبلیوں اور بلدیہ میں موجود رہے۔ سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری، طاہر پلازہ، بھتے اور پرچی کے دیگر واقعات ان کا حساب عدلیہ، پولیس اور حکومت سندھ نے کیوں نہ لیا۔ اب وہ بھی پیشکش کررہے ہیں اور مرکزی حکومت بھی اگر ان حکومتوں کے دعوے درست تھے تو متحدہ کو شمولیت کے لیے پیشکش کرنے اور مذاکرات کے بجائے سزا دلوانی چاہیے اور اگر الزامات غلط ہیں تو الزام لگانے والوں کو سزا دلوائی جائے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے چل رہے ہیں۔ عمران خان دو بھائیوں کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ رہے ہیں اور لٹھ اس طرح گھمارہے ہیں جیسے بنوٹ، پھر تو جو لپیٹ میں آئے اس کا کام تمام۔ صرف شریف برادران کے چکر میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا حلیہ بدل دیا گیا۔ عدلیہ اور سیکورٹی اداروں کو تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن آئینی طور پر تو یہ بھی کسی قاعدے قانون کے پابند ہیں۔ پاکستان میں چور سپاہی سانپ اور سیڑھی کا کھیل کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا ہے۔ کہیں عوام بپھر گئے تو بے سمت نکلیں گے ساری سیڑھیاں بھی بنالی جائیں گی اور سانپ بھی کچلے جائیں گے۔ پھر حب الوطنی اور قومی مفاد کی دہائی بھی کام نہیں آئے گی۔