عوامی مشکلات اور مسائل کا احساس کرکے انہیں حل کرانے کے لیے جدوجہد کرنے والی ملک کی واحد مذہبی اور سیاسی نظریاتی پارٹی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے سینیٹ کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے گلو گیر اور دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ’’دیر بالا میں سارا دن آٹے کے لیے قطار میں کھڑا بزرگ شخص بغیر آٹا لیے گھر پہنچا تو حرکت قلب بند ہونے سے جان کی بازی ہار گیا‘‘۔ سراج الحق کا مسئلہ سیاست اور خودنمائی نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مسئلہ اس ملک کے تمام صوبوں کو درپیش سب ہی مسائل ہیں۔ جماعت اسلامی کے قائدین مسائل کی صرف نشاندہی نہیں کرتے بلکہ اسے حل کرانے کے لیے عملی تحاریک بھی چلایا کرتے ہیں۔ یہی ان لوگوں کا مقصد سیاست ہے۔ مگر ادھر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صدر مملکت عارف علوی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مجھے ملک میں آٹے کے بحران کا علم نہیں ہے اور نہ ہی میں جانتا ہوں کہ اس کا ذمے دار کون ہے۔ صدر مملکت کی زبان سے ایسی باتیں مضحکہ خیز انکشاف سے کم نہیں۔ عارف علوی صدر مملکت ہونے کے ساتھ دندان ساز بھی ہیں، سنا تھا کہ دانتوں کے مریض کی بینائی اور سماعت متاثر ہوجاتی ہیں، عارف علوی تو دانتوں کے ڈاکٹر ہیں، ان کی نظر اور سماعت کم نہیں ہوسکتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ سماعت، بینائی اور دانائی کم ہونے کی شکایات وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور وزراء کو ہوتی ہے قوم کے لیے یہی بہت ہے۔
صدر مملکت کی آٹے کے بحران کے حوالے سے لاعلمی اپنی جگہ کیونکہ انہیں تحریک انصاف کے صدر عمران خان نے اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا اس لیے انصافیوں کا موجودہ رویہ دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنی معلومات پر ’’یو ٹرن‘‘ لیتے ہوئے یہ جملہ کہہ گئے ہوں گے۔ مگر صدر مملکت کی اس لاعلمی پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پلوشہ خان کا تبصرہ خاصہ دلچسپ ہے۔ پلوشہ نے کہا کہ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر پر ٹی وی دیکھنے اور اخبارات پڑھنے پر پابندی ہے‘‘۔ یہ تبصرہ دراصل سیاست ہے اور صدر کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ تاہم پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما اور صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ ملک میں آٹے کے بحران سے لوگ پریشان ہیں وفاقی وزراء نے غیرذمے داری کا مظاہرہ کیا اور سندھ حکومت کو اس کا ذمے دارٹھیرایا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کو چارلاکھ ٹن گندم کی ترسیل کرنی تھی جو ایک لاکھ ٹن ملی بقیہ تین لاکھ ٹن دیگر صوبوں سے لینی تھی جب کہ دس دن تک ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال رہی تاہم اب گندم پہنچنا شروع ہوگئی ہے اور سوا لاکھ بیگ پہنچ چکے ہیں ان شاء اللہ جلد سندھ سے آ ٹے کابحران ختم ہو جا ئے گا۔ سعید غنی کی جانب سے آٹے کا بحران ختم ہونے کی خبر پر ہمیں خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ انہوں نے آئی جی سندھ سے چلنے والے تنازعے کے باوجود عوام کے ایک اہم مسئلے آٹے کے بحران کی طرف بھی توجہ دی۔ کراچی سمیت سندھ کے عوام تو سمجھنے لگے تھے کہ سندھ حکومت کی نظر میں صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ آئی جی کلیم امام ہیں، ان کی موجودگی میں صوبائی حکومت کسی اور محکمے اور کسی اور مسئلے کے حل پر توجہ نہیں دے سکتی۔ اللہ کا شکر ہے کہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ وفاق کی رضا مندی تک صوبائی حکومت آئی جی کلیم امام کا تبادلہ نہیں کرسکتی۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کم ازکم سندھ میں پولیس اور حکومت کی جنگ تو معطل ہوئی اور صوبائی وزیر کو آٹے کے بحران کے حوالے سے کچھ کہنے کا موقع ملا۔
ویسے وزیراعلیٰ سندھ اور وزراء تو اس بات سے واقف بھی ہوں گے کہ ’’جیے بھٹو‘‘ کے شور میں صوبے کے محکموں میں جس قدر لوٹ مار ہوئی اور فنڈز کا خلاف قانون اور بے دردانہ استعمال کیا گیا اس کے نتیجے میں تاریخی مالی بحران سر اٹھانے کو ہے۔ ابھی تو صرف مختلف ملازمین کی تنخواہوں میں تاخیر شروع ہوئی ہے۔ اس مالی بحران کی وجہ سے سندھ حکومت نے ’’کراچی کے وسائل پر قبضے کرنے کی کارروائی میں تیزی کردی ہے۔ ابھی تو صوبائی حکومت نے صرف کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور اور بلدیاتی اداروں کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے اس کے فنڈز روکنا شروع کیے جبکہ اندرون سندھ کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز اور محکموں کے ملازمین کو شہری وسائل سے چلنے والے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور کراچی واٹر بورڈ میں کھپا کر اپنا مالی بوجھ کراچی پر ڈال رہی ہے۔ یادرکھیے سندھ حکومت کراچی کی صنعتوں سے خارج ہونے والے گند آب کے منصوبے کے لیے اسلام آباد سے جاری ہونے والے 750 ملین روپے کے فنڈر روک کر اس منصوبے پر کام بند کرچکی ہے۔