رابطہ عالم اسلامی اور یہودیوں کی دلداری

553

رابطہ العالم الاسلامی کے جنرل سیکریٹری نے پولینڈ میں سابق نازی کیمپ کا دورہ کیا اور یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم پر افسوس کا بھی اظہار کیا ۔ وہ سنیچر کو یہودیوں کے سبت کے کھانے میں بھی شرکت کریں گے ۔ ہٹلر کے یہودیوں پر کیے جانے والے مظالم کی داستاں کبھی بھی مستند نہیں مانی گئی ۔ یہودیوں نے اسے ہولوکاسٹ کے نام سے معروف کیا ہوا ہے ۔ خود یورپ میں کئی تاریخی ماہرین اب بھی موجود ہیں جو دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ ہولوکاسٹ ایک مفروضہ ہے جس کی مدد سے یہودیوں نے دنیا بھر میں مظلومیت کی چادر اوڑھی اور اب وہ دنیا پر قابض ہوچکے ہیں ۔ خود یہودیوں کو بھی علم ہے کہ ہولوکاسٹ ایک مفروضہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زور زبردستی سے کئی یورپی ممالک اور امریکا وغیرہ میں ہولوکاسٹ کے انکار کو جرم قرار دلوادیا ہے اور جو بھی ہولوکاسٹ سے انکاری ہو ، اسے پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ۔ یہاں پر آزادی اظہار رائے کے سارے حامی خاموشی سے ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں ۔ ہٹلر کے یہودیوں پر کیے جانے والے فرضی مظالم کے مقابلے میں یہودیوں کے فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کی ایک ایک داستاں ثابت ہے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں ۔ اسی طرح سے بھارت جو کچھ کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ کررہا ہے ، پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے ، میانمار میں ریاست جو کچھ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کررہی ہے ، سنکیانگ میں چینی حکومت نے جس طرح سے حراستی مراکز میں دس لاکھ سے زاید مسلمانوں کو مقید کیا ہوا ہے ، ان سب کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے ۔ رابطہ العالم الاسلامی کے جنرل سیکریٹری معمولی مرتبے کے حامل نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے رہنما کے مرتبے پر فائز ہیں ۔ اس عہدے کی بنا پر انہیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز بلند کرنی چاہیے نہ کہ یہودیوں پر ہونے والے فرضی مظالم کی یادگاری تقریبات میں شرکت کریں ۔ اگر اس موقع پر وہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم پر آواز اٹھاتے تو کہا جاسکتا تھا کہ انہوں نے حق کی آواز بلند کی ۔ بہتر ہوگا کہ رابطہ العالم الاسلامی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور مسلم امہ پر ہونے والے مصائب کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے ۔ روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی حکومت کے مظالم پر اب تو اقوام متحدہ بھی خاموش نہیں ہے ، اسی طرح مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی متحرک ہے ۔ اگر رابطہ العالم الاسلامی بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس کے تن مردہ میں جان پڑ سکتی ہے ۔ بصورت دیگر یہ بھی ایک مردہ گھوڑا ہی ہے جو محض اسرائیلی خوشنودی کے لیے تو وارسا پہنچ جاتی ہے مگر فلسطین ، کشمیر اور اراکان کا راستہ اسے معلوم نہیں ہے ۔