ڈیڑھ برس ہی میں اہل پاکستان معرفت کے اس مقام پر ہیں کہ ٹیلی ویژن اسکرین پر خان صاحب کے آتے ہی آواز بند کردیتے ہیں۔ وہ بغیر سنے بھی عرفان کر لیتے ہیں کہ خان صاحب کیا فرما رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے اس کے باوجود ایسے افراد آٹے میں چٹکی نمک برابر بھی نہیں ملیں گے جو یہ کہہ سکیں کہ امریکا اور اقوام متحدہ کشمیر کا تنازع حل کرکے کشمیر کا الحاق پاکستان سے کرانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ نجانے امریکا اور اقوام متحدہ نے پاکستان کے ماضی اور حال کے حکمرانوں کے کان میں کب یہ بات کہی کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرادیں گے۔ پاکستان کے حکمران امریکا اور اقوام متحدہ کا نام اس اعتماد اور عقیدت سے لیتے ہیں جیسے کسی کامل پیر اور بزرگ کا معاملہ ہو۔
ایک صاحب کسی بزرگ کے پاس گئے اور عرض کی حضرت بہت تکلیف میں ہوں، بہت پریشانی ہے۔ ایک کمرے کا گھر ہے اس میں میں، میری بیوی، چار بچے، بوڑھی ماں اور دو بہنیں رہتی ہیں۔ ایک بوڑھی رشتہ دار بیوہ، بھی ساتھ ہی رہتی ہیں۔ اتنے سارے افراد اور ایک کمرہ۔۔ سخت پریشانی ہے۔ کہاں جائوں کیا کروں۔ یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو نکل پڑے۔ بزرگ نے گردن جھکائے بڑے غور سے اس شخص کا احوال سنا اور کہا ’’تمہارے مسئلے کا حل بہت آسان ہے۔ ایک مرغا لے آئو۔ اسے بھی کمرے میں رکھو‘‘۔ وہ صاحب خوشی خوشی گئے۔ ایک مرغا خریدا اور اسے بھی کمرے میں رکھ لیا۔ ایک ہفتے بعد بزرگ کے پاس واپس آئے تو پہلے سے بھی زیادہ پریشان۔ بولے ’’حضرت مسئلہ حل نہیں ہوا۔ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مرغا شور مچاتا ہے اور کمرے میں جگہ جگہ گندگی بھی کردیتا ہے‘‘۔ بزرگ نے گردن جھکائی اور بولے ’’اب آئی بات سمجھ میں۔ تمہارا مسئلہ ذرا بڑا ہے۔ ایک بکرا لے آئو۔ اسے بھی ساتھ رکھو۔ ایک ہفتے بعد آکر بتانا‘‘۔ ایک ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو پریشانی سے کانپ رہے تھے۔ بولے ’’حضرت مسئلہ گمبھیر ہوگیا۔ بکرا پیشاب بھی کردیتا ہے اور ساری رات میں میں کرکے گھر والوں کو سونے بھی نہیں دیتا‘‘۔ بزرگ بولے ’’بھئی معاف کرنا تمہارا مسئلہ میرے خیال سے بھی زیادہ بڑا ہے ایسا کرو کہ ایک گدھا بھی لے آئو۔ اسے بھی ساتھ رکھو۔ اللہ خیر کرے گا‘‘۔ اگلے ہفتے وہ صاحب آئے تو لگتا تھا بس پاگل ہونے والے ہیں۔ بزرگ نے کہا دیکھو گھبرانا نہیں ہے ایسا کرو کہ مرغا کمرے سے نکال دو۔ وہ صاحب ہفتے بعد آئے تو بولے حضرت حالات میں کچھ بہتری تو آئی ہے۔ بزرگ نے کہا اب ایسا کرو کہ بکرا بھی نکال دو۔ اگلے ہفتے وہ صاحب آئے تو بولے حضرت کمال ہوگیا مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا ہے۔ بزرگ نے کہا اب ایسا کرو کہ گدھا بھی نکال دو اور اگلے ہفتے آکر بتائو۔ اگلے ہفتے وہ صاحب آئے تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے بولے حضرت سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا ہے۔ گھر میں سب خوش ہیں۔ کھلے کھلے رہتے ہیں۔
امریکا اور پاکستان کے حکمرانوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ جن دنوں بھارت روس کے حلقہ اثر میں تھا امریکا بھارت کو پریشان کرنے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کو کشمیر میں مداخلت کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر اکساتا رہتا تھا لیکن جب سے بھارت امریکا کے حلقہ اثر میں داخل ہوا ہے تب سے امریکا پاکستان کے حکمرانوں کو ایک ایک اقدام واپس لینے پر مجبور کررہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان عملی طور پر اہل کشمیر کی جدوجہد سے لا تعلق ہوچکا ہے۔
پچھلے برس اگست میں نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا۔ تب سے اہل کشمیر قید میں ہیں۔ چھ مہینے ہورہے ہیں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ کشمیری خواتین اور بچیوں کی عزتیں بھارتی درندوں کے ہاتھوں پا مال ہیں۔ بچے بوڑھے سسک رہے ہیں۔ کشمیری جوان بھارتی سنگینوں کے مقابل ہیں۔ بھارتی عقوبت خانوں میں بدترین اذیت کا شکار ہیں۔ کشمیری مسلمان چند قدم کی دوری پر اپنی مسلمان پاکستانی سپاہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ ان کی مددکو آتے ہیں۔ لیکن ہماری افواج نے منہ دوسری طرف کررکھے ہیں۔ وہ اپنے مظلوم کشمیری مائوں بہنوں بیٹیوں کی عزتوں اور اپنے بھائیوں بچوں اور بوڑھوں کے بہتے خون کو روکنے کے لیے امریکا اور بھارت کو ناراض کرنے پر تیار نہیں۔ روزانہ ہماری سول اور عسکری قیادت لفظوں کی جگالی کرتی ہے لیکن بھارتی درندوں کی طرف ایک گولی فائر کرنے کی جرات کرنے پر تیار نہیں۔ کئی دن پہلے انہوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ’’پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے جموں وکشمیر کی صورتحال کے دوبارہ جائز ے کا خیر مقدم کرتا ہے‘‘۔ نجانے اقوام متحدہ سے امیدیں قائم کرکے سلامتی کونسل کے بے معنی اقداما ت کا خیر مقدم کرکے عمران خان کس کو بے وقوف بنارہے ہیں۔
عملی صورتحال یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیحات میں کہیں شامل نہیں سوائے لفظوں کے توتا مینا کے۔ ان کی اولین ترجیح ان کا آقا امریکا ہے۔ 21جنوری کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنا مک فورم کے اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے اولین افغانستان کے مسئلے کا ذکر کیا اس کے بعد کشمیر کے بارے میں وہی روایتی الفاظ کہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی بھاگام بھاگ جس کا جواب دے دیا۔ امریکا کا مسئلہ افغانستان ہے۔ افغانستان میں کامیابی صدر ٹرمپ کے لیے آئندہ الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث ہوگی۔ جس کے لیے خان صاحب اور ہماری عسکری قیادت سب کچھ کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔ امریکا کی شکست خوردہ افواج کی ذلت کو جشن کامیابی میں بدلنے کے لیے وہ قالب بدل بدل کر امن معاہدے کی کوششیں کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور اپنے مشترکہ اہداف کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’’ہم دونوں طالبان اور افغان حکومت میں بات چیت کے ذریعے افغانستان میں امن اور منظم طریقے سے اقتدار کی منتقلی میں دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت افغانستان میں امریکا کی سرکاری اور غیر سرکاری فوجوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ایک معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ وہ ہدف ہے جو امریکا 18برس دہشت گردی کرکے بھی حاصل نہ کرسکا۔ یہ کامیابی طالبان کی جہاد پر یقین اور عمل کا نتیجہ ہے جسے ہمارے حکمران شکست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر پاکستان کے حکمران اگر امریکی مدد سے ہاتھ اٹھا لیں تو امریکا کے لیے افغانستان میں رہنا ممکن نہیں۔ اس کا صلہ امریکا کی طرف سے یہ ہے کہ وہ ہمیں ایف اے ٹی ایف سے بلیک میل کررہا ہے امریکی مفادات کے حصول کے لیے ہماری قیادت نے کئی دہائیوں تک پاکستان کو امریکا کی آگ میں جھونکے رکھا۔ امریکا سے تعریف و توصیف کے سرٹیفکیٹ اور اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کے لیے۔ پاکستان اور اہل پاکستان کو اس سے کیا ملا۔ سوائے ذلت، رسوائی اور امریکا کی غلامی جس میں اب بھارت کی غلامی بھی شامل ہوگئی ہے۔
سید المرسلین میرے آقا محمد عربی ؐ کا فرمان ہے ’’مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو (احمد، النسائی)‘‘
ہمارے حکمرانوں نے کفار اور مشرکین کے لیے پاکستان کی سرحدیں چوپٹ کھول دی ہیں۔ ان سرحدوں پر کوئی محافظ اور پاسبان ہے اور نہ فوج۔ امریکا اور بھارت نے ہمیں عسکری اور سیاسی طور پر مغلوب نہیںکیا بلکہ کفر اور اس کے نمائندوں کے مقابل مزاحمت، پلٹنے اور جھپٹنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیا ہے۔ ہماری قیادتیں مغرب کے ہاتھوں نیلام ہوچکی ہیں۔ جنگ میں موت تو بڑی بات ہے پابندیوں کی دھمکیوں سے ہماری قیادتیںگھٹنوں میں منہ چھپا لیتی ہیں۔ یہ حکمران کفر کی غلامی قبول کرچکے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے نمائندے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے اور فرعون صفت امریکا کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے سے سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ حاصل نہیں۔۔۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو۔۔۔ اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔