پاکستانی ڈرامے اور این جی اوز کا کردار

891

قدسیہ ملک
ہمارے ایک استاد نے ڈراما اور فلم رائٹنگ کی کلاس میں دورانِ لیکچر بتایا کہ پاکستان میں اب اچھا لکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ این جی اوز اور مشنری گروپوں کے ہم خیال ڈرامے لکھنا ہی دراصل کارکردگی گردانا جانے لگا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ کو ایک اسکرپٹ کے بآسانی لاکھوں روپے مل جاتے ہیں۔ انہوں نے شعیب منصور کی ایک فلم ’’خدا کے لیے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ اس وقت وہ اور شعیب منصور ساتھ اسکرپٹ رائٹنگ میں آئے تھے۔ ہمارے استاد پاکستان کی روایت، ثقافت اور بچوں پر زیادہ لکھتے۔ جب کہ شعیب منصور زیادہ تر این جی اووز کے کہنے پر لکھا کرتے۔ جس پر انہیں اچھی رقوم ملا کرتی۔ فلم ’’خدا کے لیے‘‘ میں جس طرح فیملی پلاننگ اور موسیقی کو عین جائز قرار دینے کے ایجنڈے پر انہوں نے کام کیا۔ لگتا ایسا ہیکہ پاکستان میں رہنے والے ایک عام آدمی کو ان دو مسائل کے سوا تیسرا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ انہوں نے جس خوبصورتی سے زیادہ بچے پیدا کرنا، غربت میں اضافہ اور زیادہ بچوں کی پیدائش میں خواجہ سرائوں کی پیدائش کو آپس میں جوڑا تھا۔ واقعی قابل ستائش تھا۔ ہوسکتا ہے اس فلم کی تحریر میں انہیں بہت بھاری رقوم کی پیشکش کی گئی ہو۔ جس سے وہ انکار نہ کرسکیں ہوں۔
اب آتے ہیں پاکستانی ڈراموں کی جانب۔ جب میں اسکول میں تھی ہمارے ہاں بڑوں کی کیبل سے مخالفت کے باعث صرف پی ٹی وی ہی آتا تھا۔ اس زمانے میں ایک ڈراما ’’انکار‘‘ جو پاکستان اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں اور بھی بہت سی این جی اوز کی خدمات اور سرمایہ شامل تھا۔ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس ڈرامے میں جن مسائل کی جانب نشاندہی کی گئی تھی، قابل ستائش تھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں مرد وزن کا تفریح کے نام پر سماجی انداز، میل ملاپ، شراب و ہیروئن کی مخلوط محفلیں، عورتوں کو اس زمانے میں انتہائی بے حجابانہ و چست لباس پہنے دکھایا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں کالج یونیورسٹیوں کی لڑکیوں کی لڑکوں سے دوستیاں، آزادانہ فحاشی اور شادی سے پہلے بننے والی مائوں کا کردار بھی بڑی ہی مہارت کے ساتھ کھلے اور چھپے انداز دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس وقت یہ سب ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ایک نافرمان اولاد کی ہیروئن اور چرس کے نشے میں مبتلا ہونے کے بعد کی زندگی کی کہانی تھی۔ سرکاری چینل ہونے کے باعث بہت کچھ ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا تھا۔ لیکن ان سب میں بھی دیکھا جائے تو ’’انکار‘‘ میں ہونے والی تمام سماجی سرگرمیاں پاکستانی معاشرے کی عکاس نہیں تھیں۔ لیکن وہی بات کہ میڈیا رائے عامہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رائے عامہ کو اپنی جانب موڑ لینے اور رائے عامہ میں بعض اوقات بحیثیت ایک استاد کردار ادا کرتا ہے۔ لوگ میڈیا کی رائے مقدم سمجھتے ہیں۔ اس کے فوری بعد ہی تواتر سے سرکاری ونیم سرکاری درسگاہوں میں نشے کی لت میں مبتلا طلبہ و طالبات کی خبریں برقی و اطلاقی میڈیا میں گردش کرنے لگیں۔ لیکن لوگ چونکہ ایسے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ان کرداروں کے عادی ہو چکے تھے۔ اس لیے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ کراچی کے بازاروں میں عورتوں کی جینز ٹی شرٹس اور چست و باریک پاجامے باآسانی دستیاب ہونے لگے۔ حالانکہ پہلے یہ سب چھوٹی بچیوں تک کے لیے محدود ہوا کرتے تھے۔ اس وقت بھی کیبل چینلز تھے۔ لیکن اس طرح کی بھرمار نہ تھی۔ لوگ پی ٹی وی کے پروگرامات بھی دیکھاکرتے تھے۔ رفتہ رفتہ سرکاری ٹی وی کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ چینلوں کی بھرمار کے باعث ہر طرح کے پروگرامات نشر کیے جانے لگے۔ لیکن بدقسمتی سے قومی وقار، ملکی سالمیت، علاقائی ہم آہنگی، عصبیت سے پاک، اسلام کے اصولوں کے مطابق نشریات ان تمام چینلوں میں سے کہیں جگہ ناپاسکیں۔ کیونکہ ایسے پروگرامات کے لیے مالی تعاون کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ انہی چینلوں پر ایک ڈراما اڈاری بھی تھا۔ این جی او کشف فاونڈیشن کا اسپانسرڈ تھا۔ جس میں گھریلو تشدد تھا۔ اس وقت سے لیکر اب تک زینب جیسے واقعات تواتر سے پاکستانی معاشرے میں وقوع پزیر ہورہے ہیں۔ جیو کے ایک پروگرام میں جس کی میزبانی غالباً سہیل وڑائچ کررہے تھے۔ خلیل الرحمان جو ڈرامے کے رائٹر ہیں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک کہانی لکھنے کے پچاس لاکھ یا اس سے زیادہ وصول کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے لکھے ہوئے جملوں کو کوئی ڈائریکٹر آج تک تبدیل نہیں کر سکا۔ جس نے کوشش کی تو اس کے ساتھ پھر میں نے کام ہی نہیں کیا۔ اس کے بعد ڈراما رائٹر خلیل رحمان فاروقی کا شاہانہ طرز رہائش دکھایا جانے لگا۔ حقیقت میری اور آپ کی نظروں سے ابھی بھی اوجھل ہے۔ حقیقت کیا ہے آئیے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
جدید دور میں این جی اوز نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے۔ تمام ممالک میں ان کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ بہت زیادہ سول سوسائٹی کو ان کے ذریعے منظم اور باہم مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ این جی اوز کا تصور بذات خود برا نہیں ہوتا۔ ان کے بنیادی اہداف نیک ہی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کے باعث صحت، تعلیم، غربت اور سماجی شعور کے متعلق مسائل گمبھیر شکل اختیار کر چکے ہیں۔ حکومتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ یہ مسائل سرکاری سطح پر حل کر سکیں۔ اس رجحان کے تحت این جی اوز کا قیام کسی نیک مشن سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ نیک مشن اس وقت معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جب ان کے بظاہر نیک اہداف کے پیچھے ان کے خفیہ مقاصد بھی معاشرے میں نفوذ پزیری اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ این جی اوز ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز اور ڈونر خفیہ ایجنسیوں کی امداد سے دنیا بھر میں چلتیں ہیں۔ امداد کے ساتھ ساتھ این جی اوز اپنے مشنری، مذہبی، اقتصادی، جغرافیائی اور دیگر خفیہ مقاصد کو بھی معاشروں میں پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے ان مخصوص اہداف اور مقاصد کا شکار زیادہ تر تیسری دنیا کے مسلم ممالک ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ مشنریز این جی اوز اپنے مذموم وخفیہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا سے فنڈز اکٹھا کرتی ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے اہم این جی اوز میں USAID,DFID اور JAICA شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے تحاشا غیرسرکاری تنظیمیں ہیں۔ ان میں سے بعض تنظیمیں پاکستان میں بھی ریاست کے اصولوں کے خلاف کام کررہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے مشرف دور میں ان این جی اوز کی تعداد میں اضافہ شروع ہوا۔ پاکستان میں اب تک بے تحاشا این جی اوز کام کررہی ہیں۔ جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستان میں نظریاتی اور مذہبی افراد کے تعاون سے بعض این جی اوز بہترین خدمات بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ لیکن فنڈز کی کمی کے باعث ایسی این جی اوز حکومتی طبقے اور میڈیا کی بے رخی کا شکار ہیں۔ اس کے برعکس غیر ملکی اور عیسائی مشینری این جی اوز گروپوں کو جہاں حکومتی سرپرستی حاصل ہے وہیں وہ میڈیا میں بھی اپنے اعتقادات ونظریات کے لحاظ سے آگے آگے ہیں۔ کیونکہ ایسی این جی اوز میں حکومت کو صرف اپنا مفاد صاف نظرآتا ہے۔ جبکہ مفاد عامہ کے نام پر بھی یہ این جی اوز کھلم کھلا فحاشی و عریانی پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ تیسری دنیا کے رائٹروں کو منہ مانگی قیمت دے کر خرید لینا، رائے عامہ اپنی مرضی سے ہموار کرنا، ملکی و قومی مفاد کی دھجیاں اڑانا ان کے خفیہ بنیادی اہداف ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں آج کل مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے والے ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی جانب جو اے آروائی ڈیجیٹل سے پیش کیا جارہا ہے۔ جس میں بڑی مہارت، حاضر دماغی اور زبان کے الٹ پھیر سے پاکستانی معاشرت، تہذیب وتمدن، رہن سہن، طرز معیشت، کلچر اور کئی جگہوں پر زبان کے ساتھ جس خوبصورتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے عام آدمی اس سے حاصل شدہ ہولناک نتائج کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہیں کہیں تو ان تمام جزیات کی دھجیاں تک اڑا دی گئی ہیں۔ لیکن یہ کام اتنی مہارت اور حاضر دماغی سے کیا گیا ہیکہ عوام اس کے روح فرسا مضمرات سے مکمل طور پر نا آشنا نابلد ہیں۔ جس طرح ہمارا پاکستانی میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا تفریح طبع کے نام پر مسلسل اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے والے مواد کی تشہیر کررہا ہے۔ بالکل اسی نظریے اور خیال کو لے کر یہ ڈراما اپنی شہرت کے مدارج کو طے کررہا ہے۔
اس میں پاکستانی معاشرے میں عام آدمی کی مکمل کردار کشی کی گئی ہے۔ اس ڈرامے میں شروع سے آخر تک کہیں پاکستانی معاشرے کے عام فرد کی درست سمت نشاندہی نہیں کی گئی۔ انتہائی حساس موضوعات کو بہت غلط سلط انداز میں پیش کرکے رائے عامہ ہموار کی گئی ہے۔ ایسا لگ رہاہے کہ گویا یہ ڈراما پاکستانی عوام کو ہاتھ پکڑ کر دینی و اسلامی معاشرت سے ہٹاکراپنی سمت چلنے کی دعوت دے رہا ہو۔ سب سے پہلے مخلوط محفلیں جو پہلے کہیں شاذ ونادر ہی سننے میں آیا کرتی تھیں، اب عمومی رجحان بن چکی ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں مخلوط محفلوں کے ساتھ مغربی معاشرے کی طرز پر مرد وخواتین کا ساتھ رقص کرنا، بیوی کا اپنے شوہر کی آمدنی سے بڑھ کر فرمائشیں کرنا، پھر فرمائشیں پوری نہ ہونے کی صورت میں شوہر کی طرح نوکری کرنا، اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا، شوہر کے ہوتے ہوئے دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، شوہر اور بچے کو چھوڑ کر صرف محدود وسائل اور دولت نہ ہونے کے باعث دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز زندگی گزارنا، شوہر سے طلاق لے کر بغیر عدت کے دوسرے مرد کے ساتھ حرام کاریاں کرنا، پھر اس مرد کے چھوڑ دیے جانے پر دوبارہ شوہر کے ساتھ بغیر حلالہ کیے زندگی گزارنے کی خواہش ظاہر کرنا، مرد وعورت دونوں کا بدکرداری کو عین جائزدکھانا، اگر مرد کے لیے معافی ہے تو عورت کے لیے کیوں نہیں یا نکاح میں طلاق ہوتی ہے محبت میں نہیں۔ ایسے جملوں کی تکرار کی باعث عورت کی عزت اور محصنات کی توہین کرنا۔ یہ سب اس ڈرامے کے چند اہم نکات ہیں۔ متنازعات سے بھرے اس ڈرامے میں اگرچہ کچھ اچھے جملے اور اچھے اصول بھی بتائے گئے ہیں لیکن ان چند اچھے اقدامات کی وجہ سے ڈرامے کی بہت ساری غیر شرعی، غیر اسلامی و غیر قانونی روایات کو صحیح نہیں کہا جاسکتا۔ بدکرداری کا لیبل دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ گھروں میں عورت کی درست اسلامی تربیت ہوگی تو وہ اسلامی طرز پر نسلوں کی تربیت کرسکیں گی۔ اسلام ہی ان تمام مضمرات کی بیخ کنی کے لیے کافی ہے۔ دین اسلام سے مکمل آگہی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میڈیا کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہے۔ کون صرف کٹھ پتلی بنا کھیل رہا ہے۔ اب یہ سب بالکل واضح ہے۔ ترکی ڈراما ارطغرل کے نام سے تو آپ سب واقف ہی ہوں گے۔ اب تک دنیا کے 78مما لک میں یہ سیریز دیکھی جا رہی ہے جس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے ان عظیم کرداروں کو محمد بزداغ عبدالرحمن نے بطور مصنف اور اسکرین رائٹر بڑی مہارت اور شان سے زندہ کیا ہے۔ ہمارے پاس بہترین لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں پاکستان کی نظریاتی و اسلامی سالمیت کو پیش نظر رکھ کر ڈرامے بنائے جائیں۔ غیر ملکی این جی اوز کو ایک قانون کا پابندکیا جائے۔ تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہوسکے۔