کیا بغاوت ختم ہو گئی؟

453

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے تحریک انصاف کی تینوں صوبائی حکومتوں کے خلاف ہونے والی بغاوت کو فرو کرنے کی کارروائی میں خیبر پختون خوا کے تین صوبائی وزراء کو فوری طور پر کابینہ سے باہر کردیا ہے جبکہ بلوچستان میں باغی اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے درمیان مصالحت کا نسخہ آزمایا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے پنجاب میں بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو سخت پیغام دیا ہے ۔ عمران خان نیازی کے ان سرعت انگیز اقدامات کے نتیجے میں بظاہر تو معاملات قابو میں آگئے ہیں اور بغاوت کو کچل دیا گیا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچادیا گیا ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاملات یہاں تک پہنچے ہی کیوں ؟ خیبر پختون خوا کے جن تین وزراء کو کابینہ سے برطرف کیا گیا ہے ان میں سینئر وزیر عاطف خان بھی ہیں جنہیں عمران خان نیازی اپنا ہیرو قرار دیتے رہے ہیں اور وہ وزار علیا کے مضبوط امیدوار رہے ہیں۔ اس اقدام سے صرف تین دن پہلے 23 جنوری کو بھی کے پی کے ترجمان شوکت یوسفزئی کسی قسم کی بغاوت یا اختلافات کی تردید کر رہے تھے۔ ان تین وزراء کی بر طرفی کا فیصلہ عمران خان کے ڈیووس جانے سے پہلے ہو چکا تھا لیکن اسے بھی چھپایا جا رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں حکمرانوں کا ہر بیان اور دعویٰ مشکوک ہو جاتا ہے۔ پنجاب میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ بزدار ، محمود خان اور جام کمال تینوں ہی عمران خان نیازی کا انتخاب ہیں ۔ ان تینوں کے خلاف اپنوں ہی کی بغاوت کا واضح مطلب یہ ہے کہ درون خانہ حالات درست نہیں ہیں ۔ کہیں پر دھواں اٹھنے کا مطلب یہی ہے کہ کسی نہ کسی درجے کی آگ موجود ہے اور کسی بھی وقت یہ آگ قابو سے باہر ہو سکتی ہے ۔ اس بات سے ہر ایک کو اتفاق ہے کہ جب سے عمران خان نیازی نے اقتدار سنبھالا ہے ، اُس دن سے ہی ملک کے معاشی و معاشرتی حالات ابتری کا شکار ہیں ۔ معاشیات کا کون سا اشاریہ ہے جو بہتر ہوا ہے ۔ آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کا تو شور ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس کی قلت ہوگئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قلت کسی بھی شے کی نہیں ہے ، ہر شے وافر مقدار میں موجود ہے بس اس کا شور مچا کر قیمتوں میں بھرپور اضافہ کردیا گیا ہے ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ صرف آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر شے کی قیمت میں زبردست اضافہ کردیا گیا ہے ۔ دال، سبزی ، چاول ، چائے کی پتی ، پھل کون سی چیز ہے جس کی قیمت میں زبردست اضافہ نہیں دیکھا جارہا ہے ۔ کچھ یہی صورتحال معاشرتی معاملات کی ہے ۔ جس طرح سے آئی ایم ایف کی ہدایت پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی زبردست بے قدری کی گئی ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں زبردست اضافہ کیا گیا ، ہر کچھ دن کے بعد پٹرول کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح آئی ایم ایف ہی کی ہدایت پر معاشرتی اقدار کو شعوری طور پر ہدف بنایا جارہا ہے ۔ عمران خان نیازی ہی کے دور حکومت میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور پھر اسے باقاعدہ بھارتی ریاست میں شامل کرلیا ۔ اس کے جواب میں عمران خان نیازی اور ان کے سرپرستوں نے خاموشی اختیار کرکے عملی طور پر بھارت کی پشتیبانی کا فریضہ انجام دیا ۔ اب نجی محفلوں میں یہی سرکار فرمارہی ہے کہ بھارت ایک بڑی معاشی قوت ہے ، جس سے ٹکراؤ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا ۔ یہ سب حالات پاکستانی عوام کے لیے انتہائی مایوس کُن ہیں ۔ یہ درست ہے کہ پنجاب ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے اصولوں پر بغاوت نہیں کی تھی بلکہ ان کے ذاتی مفادات ہیں مگر یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ عوام تحریک انصاف کی حکومت سے مایوس ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہرشخص کی حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ عمران خان اسی پر نازاں ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کی صفوں میں ہونے والی بغاوت ختم کردی ہے اوراب ان کی حکومت مستحکم ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ عمران خان نیازی کے لیے آرام دہ ہوں مگر انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ گند کو قالین کے نیچے چھپانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ گھبرانا نہیں ہے ، کا نعرہ لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے ، انہیں اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔ سب سے پہلے تو انہیں معاشی بنیادیں ہی مستحکم کرنی ہوں گی ۔ پوری پاکستانی قوم کو ٹیکس چور کہنے کے بجائے کے الیکٹرک ، کھا د کمپنیوں ، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں ،بڑے بڑے ہوٹلوں کی ٹیکس چوری پر قابوپانا ہوگا ، ان سے ہزاروں ارب روپے کے چوری شدہ ٹیکس کی ریکوری کرنا ہوگی ، ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کے نظام کو درست کرنا ہوگا ۔ ٹیکس بڑھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ مسائل پیدا کرنے کی وجہ ہے ۔ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے لیے کم از کم ٹیکس کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے ۔ ٹیکس چوری کو روکنے کے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں اور ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو موثر بنایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اس کے بالکل برخلاف صورتحال ہے ۔