ٹرمپ کا امن منصوبہ یا ارض فلسطین کے خاتمہ کا اعلانیہ

344

امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ صدر ٹرمپ 28جنوری کو مشرق وسطیٰ میں امن کا موعودہ منصوبہ پیش کریں گے جس کے بارے میں امریکی صدر کا دعویٰ ہے کہ یہ اس صدی کا اہم ترین منصوبہ ہوگا۔ ٹرمپ یہ منصوبہ وہائٹ ہائوس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی حزب مخالف کے رہنما گانتز سے ملاقات میں پیش کریں گے جس کے لیے انہیں خاص طور پر واشنگٹن آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ منصوبہ کس قدر یک طرفہ ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس منصوبہ کے اعلان کے موقع پر فلسطین کی انتظامیہ کے سربراہ یا کسی فلسطینی رہنما کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے پر ان کی انتظامیہ نے فلسطینیوں سے مختصراً بات چیت کی ہے۔ ویسے فلسطینیوں نے ٹرمپ منصوبہ کے اعلان سے پہلے ہی اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے اعلان سے پہلے یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے سیاسی مفادات کو فوقیت دی جارہی ہے۔ ٹرمپ نے اس منصوبے کے اعلان کا ایسا وقت چنا ہے جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات پر معافی کی تحریک پر اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسہ میں بحث شروع ہونے والی ہے۔ اور پانچ ہفتوں کے بعد اسرائیل کے نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔
اسرائیل کے ٹیلی وژن چینل 12 نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن منصوبہ اسرائیل کے لیے غیر معمولی طور پر فراغ دلانہ پیش کش ہے۔ چینل 12کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امن منصوبے کے تحت پورے یروشلم پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرتے ہوئے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جبری طور پر تعمیر شدہ تقریباً تمام یہودی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس وقت مغربی کنارے پر ایک سو بیس یہودی بستیاں ہیں جن میں سے ایک سو بستیاں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اسرائیل کی خود مختاری میں دے دی جائیں گی۔ ان بستیوں میں چار لاکھ یہودی آباد ہیں۔ ان تمام یہودی بستیوں پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنے کا مطلب، نہ صرف اقوام متحدہ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ سابقہ امریکی انتظامیہ کی پالیسی کے بھی منافی ہوگی۔ امریکی انتظامیہ کے پچھلے فیصلہ کے مطابق ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی جبراً تعمیر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ٹی وی چینل 12کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی اس شرط پر فلسطینی مملکت تسلیم کی جائے گی کہ فلسطینی غزہ کو غیر فوجی علاقہ قرار دیں اور حماس کو غیر مسلح کردیں۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ فلسطینی اسرائیل کو ایک یہودی مملکت تسلیم کریں۔
ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو سرحدوں پر کنٹرول کا حق نہیں ہوگا اور مغربی کنارے کی وادی میں اسرائیل کو مکمل طور پر سیکورٹی کنٹرول حاصل ہوگا۔ یعنی فلسطینی مملکت کو اپنے علاقہ میں باہر سے کسی کو داخلہ کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ اس بارے میں سارا دارومدار اسرائیلی فوج کو ہوگا۔ مجوزہ امن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ارض فلسطین سے باہرکسی بھی فلسطینی پناہ گزیں کو اپنے وطن واپس آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ان فلسطینی پناہ گزینوں کو کوئی معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد طاقت کے بل پر ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور ان کے وطن سے بیدخل کردیا گیا تھا۔ ہمیشہ فلسطینیوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ارض فلسطین کے باہر پناہ گزیں فلسطینیوں کو اپنے وطن واپس آنے اور یہاں بسنے کی اجازت دی جائے لیکن اسرائیل نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کیا ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ ان فلسطینیوں کی واپسی سے اسرائیل میں آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ بہت پہلے امن منصوبے کا اعلان کرنا چاہتے تھے لیکن اسرائیل کے انتخابات کے الجھائو کی وجہ سے انہیں اعلان موخر کرنا پڑا لیکن اب اسرائیل کے 2 مارچ کو ہونے والے انتخابات سے پہلے اس منصوبہ کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا فائدہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ہوگا کیونکہ امن منصوبے کے تحت، مغربی کنارے کے پندرہ فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کیا جاسکے گا اور مشرقی یروشلم کے اردگرد فلسطینی بستیوں پر بھی اسرائیل قبضہ کر سکے گا یوں یہ اسرائیل کی غیر معمولی فتح تصور کی جائے گی اور بلا شبہ اس کا سہرا نیتن یاہو کے سر رہے گا۔
ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بڑی سرعت سے امریکا کے اسرائیل سے قریبی تعلقات استوار ہوئے ہیں اور عالمی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود، ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں فیصلے کیے ہیں جن میں سب سے پہلا فیصلہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر امریکا کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تھا۔ پھر حال میں امریکا نے جولان کی پہاڑی علاقے پر بھی اسرائیل کے فوجی تسلط کو جائز قرار دیا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اسرائیل کو بھرپور اعتماد تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا منصوبہ غیر معمولی طور پر اسرائیل کے حق میں جائے گا اور اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کے انکشاف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ اس اعتماد پر پورا اترا ہے اور اسرائیل کو غیر معمولی طور پر مراعات دی گئی ہیں جن کے تحت فلسطین کا وجود عملی طور پر ختم ہو جائے گا۔ امریکا اور مغربی طاقتیں اور ان کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک بھی اس وقت اسرائیل پر جس انداز سے نچھاور ہیں اس کے پیش نظر فلسطینی بے یار ومدد گار نظر آتے ہیں اور وہ اس قابل نظر نہیں آتے کہ وہ ٹرمپ کے امن منصوبہ میں کوئی تبدیلی لا سکیں یا اسے مسترد کر سکیں۔