ڈاکٹر عارف علوی
جعلی خبر عموماً تین تصورات کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ غلط معلومات جو غیر اعلانیہ یا بیان میں حادثاتی غلطی سے ہو۔ کسی شخص کو بدنیتی سے نقصان پہنچانے کے لیے ڈس انفارمیشن (بے بنیاد معلومات) من گھڑت یا جان بوجھ کر ترمیم شدہ خبریں اور وہ معلومات جو اگرچہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں لیکن انہیںکسی شخص کو نقصان پہنچانے یا بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں نے حال ہی میں کراچی کے دو اداروں، قومی ادارہ برائے امراض قلب اور بچوں کی صحت کے قومی ادارے کا دورہ کیا۔ یہ ادارے نادار طبقات کو ضروری سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ اس دورے کے بعد میڈیا سے حسب معمول گفتگو ہوئی، جہاں ایک رپورٹر نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’اس وقت شہر میں آٹے کا بد ترین بحران چل رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے..؟ کیونکہ اس وقت تک کسی کو موردِالزام ٹھیرانا مناسب نہیں تھا، اس لیے میرا جواب تھا، ’’مجھے اس کا پتا نہیں ہے، مگر پتا ہونا چاہیے‘‘۔ اس مختصرگفتگو کو الیکٹرونک میڈیا نے غلط انداز میں پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ صدر پاکستان ملک میں گندم کے بحران سے پوری طرح بے خبر تھے، حالانکہ میرا جواب اس مخصوص سوال کے ردعمل میں تھا کہ اس بحران کا ذمے دار کون ہے۔
جواب کوجس طرح پیش کیا گیا اس نے مہنگائی اور غربت سے دوچار افراد میں حیرت اور ناراضی کا گہرا احساس پیدا کیا۔ خبر کا یہ جعلی زاویہ صبح رونما ہوا لیکن سہ پہر تک تقریباً تمام چینلز صدر کی بے حسی پر مضحکہ خیز، طنزیہ اور توہین آمیز تبصرے کر رہے تھے۔ جس طرح سے میرے جواب کا غلط حوالہ دیا گیا اس سے ایسے لگا جیسے مشکل وقت سے گزرنے والے لوگوں کے زخمو ں پر نمک پاشی کی گئی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا منفی ردعمل کے ساتھ بھرا ہوا تھا۔ بہت سے سیاست دانوں نے اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں صدر کو جاہل اور بے رحم قرار دیتے ہوئے مزید طنز کا نشانہ بنایا۔ اس صورتحال میں، میں نے میڈیا کو ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب میں لکھنے لگا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ میرے ذاتی معاملے سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذا کسی چینل، اس کے رپورٹر یا اس کے ادارتی عملے کو مورد الزام ٹھیرانے کے بجائے، میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ایسا معاشرہ جو جعلی اور غلط خبروں کے حصار میں ہے، اس میں اس چیلنج سے مستقبل میں نبرد آزما ہونے کے لیے عوامی سطح پر مباحثے کا اہتمام ہونا چاہیے۔
سوشل میڈیا اپنی بڑھتی ہوئی عمومی رسائی اور اثرو رسوخ کے ساتھ چند ہی منٹوں میں خبر عام کر دیتا ہے، الیکٹرونک میڈیا کچھ گھنٹوں ہی میں اس کی پیروی کرتا ہے اور پرنٹ میڈیا 24 گھنٹوں میں اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ٹیلی ویژن میں بریکنگ نیوز کا تصور انتہائی تشویشناک ہے۔ مارکیٹ میں ’’سب سے پہلے کون‘‘ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہم ’’بریکنگ نیوز‘‘ کو بہتر خیال کرتے ہوئے ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم میری تشویش یہ ہے کہ بریکنگ نیوز بنانے کے لیے انسانوں کو بریک چاہیے۔ اس طرح کی غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے جھگڑے کی ابتدا کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کامل نہیں، یقینا میں بھی نہیں۔ 24 گھنٹے سیاسی اور سماجی شخصیات کی سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر موجودگی کی وجہ سے وہ لوگوں کی گہری نظر میں رہتے ہیں۔ سیاست دانوں کا خود کو اس آزمائش میں ڈالنا ان کے کارہائے منصبی کا حصہ ہے جو ایک ہمہ وقت جاری انٹرویوکی صورت اختیار کر چکا ہے۔ شیکسپیئر نے یقینا یہ سوشل میڈیا ہی کے لیے لکھا تھا کہ ’ساری دنیا ایک اسٹیج ہے‘۔ تاہم ایک حقیقی زندگی اسٹیج کے پیچھے بھی ہے، لوگ گھر جاتے ہیں جہاں پس منظر کی پردہ داری ہوتی ہے، جو پورے دن میں سجائی جانے والی مسکراہٹ، نقاب اور بہروپ سے آزادی فراہم کرتی ہے لیکن یہ آزادی سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ان افراد کے لیے نہیں جن کا مقصد اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی ان نقادوں کے لیے ہے جن کا مقصد دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوںکو اچھالنا اور دوسروں کی زندگی کے ہر تاریک پہلو کومنظر عام پر لانا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی ہر پوسٹ میں یہ مہم مسلسل جاری ہے۔ ہماری شخصیات کی تشکیل کے وقت اخلاقیات پر رسمی گفتگو نہ صرف آسان تھی بلکہ ضروری بھی۔ آج معاشرتی چکا چوند نے اخلاقی زندگی کافی مشکل بنا دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اخلاقی طور پر زمین چپٹی ہو چکی ہے جہاں عام انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
ریاست مدینہ کے خواب پر ایسے تبصرے سننے کو ملتے ہیں جہاں نقاد یہ کہتے ہیں کہ اس خواب کو دیکھنے سے بھی پہلے ’’آپ خود کامل بنیں‘‘ اور جب تک آپ کامل نہیں ہو جاتے اس بارے میں بات کرنے کی بھی جسارت نہ کریں۔ یہ رویہ ہم ناقص انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتا۔ مارٹن لوتھر کنگ کی ’میرا ایک خواب ہے‘ کی تقریر آج کے میڈیا میں بُری طرح چیلنج ہوتی جہاں اُن کی زندگی کے ہر پہلو پر کیمرے مرتکز ہوتے۔ اُس وقت بھی سفید نسل پرستوں نے کوشش کی تھی مگر ناکام ہوگئے۔ آخر وہ ایک انسان ہی تھے مگر ایسے زمانے میں رہتے تھے جہاں خواب دیکھنے کے لیے کاملیت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم غیر ضروری آگاہی اور انتشار کی حالت میں ہیں۔ میڈیا نے ہمیں معلومات کی زیادتی کے بوجھ تلے دبا دیا ہے جہاں ’’فوری‘‘ نے ’’اہم‘‘ کی جگہ لے لی ہے۔ یہ ہماری حس تناسب کو تباہ کررہا ہے۔ ہمارے شعور و آگاہی پر ٹھونسی جانے والی بریکنگ نیوز ایک ایسے نظام پر چلتی ہے جس کی بنیاد ’’درجہ بندی‘‘ اور ’’توجہ طلبی‘‘ پر ہے۔ کمرشل پیکیج کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے جو خود ایک کاروبار ہے جسے اشتہارات کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔ خبر بنانے والے اپنے ہتھیار روزانہ تیز کرتے ہیں تاکہ یہ جنگ جیتی جاسکے اور اس عمل میں افراد توجہ طلب خبروں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایک مصنف کے الفاظ میں ’’یہ ہمارے دماغوں کے لیے معلومات اور بے بنیاد خبروں کے فائر ہوزز ہیں‘‘۔ جو ہماری حس حقیقت اور تناسب کو ڈبو دیتے ہیں اور ہم معمولی کو غیر معمولی سے الگ نہیں کرپاتے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ چلنے والے پروگرام وہ ہیں جو سب سے زیادہ جارحانہ اور غیر متوازن خبریں دیتے ہیں۔ جعلی خبروں کے لیے سب سے بڑا آلہ چیزوں کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کرنا ہے جس کے اثرات خود ذاتی طور پر میں نے اوپر بیان کیے گئے واقعہ میں اور دیگر مواقع پر برداشت کیے ہیں۔
موجودہ لغت میں داخل ہونے والے نئے لفظ “Whataboutism” کا سدباب کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں سوشل میڈیا کو سمجھتا ہوں اور اس کا بھرپور استعمال بھی کرتا ہوں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو تسلی بھی دی ہے کہ سوشل میڈیا ایک ’’چائے خانہ‘‘ ہے جہاں کوئی بھی نامعلوم شخص کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے برداشت بہت ضروری ہے لیکن آج جب کہ ہمارے نظریات اور فیصلوں کا ’’جعلی خبر‘‘ کے ذریعے استیصال کیا جاسکتا ہے، ایک معاشر ے کے طور پر ہمارا مجموعی شعور Hybrid Warfare سے خطرے میں ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں تیاری کرنی ہوگی۔ تاہم ذمے دارانہ صحافت کو سوشل میڈیا کی طرح غیر ذمے دار رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔ نیوز روم میں تصدیق اور پڑتال کرنا ایک ضروری ہنر ہے۔ صحافیوں اور مدیروں کو اس مہارت سے آراستہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ اُن کی خبر مصدقہ، غیر جانب دار اور مبنی بر حقیقت ہو۔ پیمرا اور دوسرے قانونی اداروں کا سہارا لینے کے بجائے میں چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں ایک بحث چھیڑی جائے جیسا کہ تمام دنیا میں ہورہا ہے۔ لیکن یہ وطن آپ کا اور میرا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے میں دنیا پر سبقت لے سکتے ہیں؟ ’’سوشل وارمنگ‘‘ انسانی سطح پر بالکل گلوبل وارمنگ کی طرح ہے جو ہماری زندگی کو چھوتی اور متاثر کرتی ہے۔ ہر بیان اور ردِ بیان، ہر حقیقت اور افسانہ، ہر سچ اور جھوٹ، ہر درست اور غلط خبر کی گہری گونج اور ا ثرات ہیں۔ ٹی وی پر درجہ بندی، سوشل میڈیا پر پیروکاروں کی تعداد اور پسند اور ناپسند انسان کو ناپنے کا پیمانہ بن گئی ہیں، جو اکثر ذہنی تنائو کا باعث بنتی ہیں، یہاں تک کہ پوری دنیا میں نوجوانوں میں خودکشی پر بھی منتج ہوتی ہیں۔ امید ہے کہ ہم انسان وقت کے ساتھ ساتھ اس طوفان کو سمجھ کر اس سے نمٹ سکیں گے۔