سندھ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ

351

سندھ کے لوگوں سے اگر سوال کیا جائے کہ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو وہ جواباً حیرت سے دیکھیں گے اور پھر سوال کے جواب میں کہیں گے کہ مسئلہ، یہاں تو مسائل ہیں اور سارے مسائل ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور ان سب کی جڑ پیپلز پارٹی کی دس سال سے موجود حکمرانی ہے۔ مگر حکمرانوں کے رویے اور ان کی حالیہ مصروفیات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر کلیم امام ہیں۔ مگر اس مسئلے کو حل کرنے میں بھی ناکام ہوکر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بے بسی سے یہ بیان دے رہے ہیں کہ سندھ میں وہی افسر چلے گا جو نمائندوں کی پالیسی پر عمل کرے گا۔ مگر صوبے کے لوگ موجودہ حکومت کے گیارہ سال گزرنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پیپلز پارٹی کی اس حکومت کی اور اس کے نمائندوں کی پالیسی کیا ہے؟۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے بقول سندھ حکومت انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے اس لیے انہیں عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ گزشتہ جمعرات کو سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن خرم شیر زمان کی جانب سے آئی جی سندھ کے تبادلے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس پر وزیراعلیٰ سندھ برس پڑے۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ایک دہشت گرد کے پاس اخباری نمائندے کو رسائی بھی دی گئی جس کا مقصد مجھے بدنام کرنا تھا، پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں، میرے پاس اکتوبر میں ایک ڈاک آئی کہ پولیس ہمارے خلاف من گھڑت کیس بنائے گی، میں نے ایک اچھے افسر سے انکوائری کروائی مگر وہ انکوائری رپورٹ مجھے آج تک نہیں ملی کیونکہ وہ رپورٹ آئی جی نے دبالی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کابینہ نے آئی جی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ کلیم امام اب اوچھی حرکتوں پر اترآئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی جی کو
چلانے کی کوشش کی مگر وہ اس قابل نہیں کہ انہیں سندھ میں مزید رکھاجائے، آئی جی اب پارٹی بن چکے ہیں، وہ اپوزیشن کے ارکان سے رابطے کرتے رہے ہیں، ہم افسران کو سیاست میں حصہ نہیں لینے دیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ چاہتا ہوں کہ پولیس آزادی سے کام کرے لیکن پولیس پارٹی بن جائے خاص طور پر آئی جی تو وہ پریشان کن ہے، صوبے امن وامان کی صور تحال بہت زیادہ خراب ہے، آئی جی کی نااہلی کی وجہ سے پولیس میں مسئلے کھڑے ہورہے ہیں۔
سندھ حکومت کو درپیش سب سے بڑے مسئلے یعنی آئی جی کلیم امام کا تبادلہ کے لیے 27 جنوری کو وزیراعظم عمران خان سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی میٹنگ بھی ہوئی۔ مراد علی شاہ ملاقات میں وزیراعظم سے اپنا مسئلہ حل کرانا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ وزیر اعظم کا استقبال کرنے کراچی ائرپورٹ بھی پہنچ گئے حالانکہ اس سے قبل وزیراعظم کی آمد پر انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ رہی بات کراچی سمیت سندھ کے مسائل کی اور سندھ کے منتخب عوامی نمائندوں کی پالیسی کی جس کا ذکر وزیراعلیٰ نے سندھ اسمبلی میں کیا۔ سندھ حکومت کراچی کے مسائل کے حل کے نام پر جو منصوبے برسوں سے چلارہی ہے انہیں دیکھ کر بھی اس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت کو گرین لائن بس سروس کے لیے بسیں لانی تھیں وہ کمیشن اور دیگر مسائل کی وجہ سے نہ آسکیں تو گزشتہ سال وزیراعظم نے بسیں بھی وفاق کی طرف سے اس پروجیکٹ کو دینے کی منظوری دے دی۔ نکاسی آب کراچی کا عظیم تر منصوبہ ایس تھری کے ساتھ صوبائی حکومت نے ایسا مذاق کیا کہ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ٹریٹمنٹ پلانٹ نمبر 3 کو جون 2018 میں مکمل کیا جانا تھا مگر تاحال یہ مکمل نہیں ہوسکا بلکہ اس کی تکمیل کی مدت بھی صوبائی وزیر بلدیات و چیئرمین کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ ناصر شاہ کی منظوری سے دسمبر 2021 تک بڑھادی گئی۔ ایسا کرتے وقت منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر کنٹریکٹر سے جرمانہ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس منصوبے کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تھری پر کام مکمل ظاہر کرکے اس کا افتتاح بھی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار سے 22 جولائی 2018 کو کرالیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک تقریب بھی رکھی گئی تھی مگر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا کام اب بھی چل رہا ہے اس کو مکمل کرنے کی مدت 2021 کردی گئی۔ مدت میں اضافے کے باوجود صوبائی وزیر بلدیات یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ منصوبہ اس سال مکمل ہوجائے گا۔ یہی نہیں فراہمی آب کے بڑے منصوبے کے فور جس پر 2014 میں کام شروع کردیا گیا تھا اور سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے 25 اپریل کو اس کا ٹھیکا پاک فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو دے دیا تھا جس پر جون 2016 سے کام شروع بھی ہوگیا تھا اس منصوبے کو ستمبر 2018 میں مکمل کیا جانا تھا مگر جنوری 2018 میں اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر سلیم صدیقی کو ہٹادیا گیا اور ایک غیر انجینئر اسد ضامن کو اس کا پی ڈی بنادیا گیام پی ڈی کی حیثیت سے غیر معمولی مراعات لینے کے باوجود مذکورہ منصوبے پر دو سال سے کام معطل ہے اور سندھ حکومت کی اس منصوبے کی تکمیل کے لیے دلچسپی سب کے سامنے۔ پیپلز پارٹی کے دس سالہ دور میں کراچی سمیت پورے صوبے کے وسائل کو نچوڑا جارہا ہے مگر دعویٰ بہترین حکمرانی کا کیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے حلقہ انتخاب کے 20 افراد کو جو سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں خدمات انجام دے رہے تھے ان کی خواہش پر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کردیا جہاں ان کی پوسٹنگ کراچی میں کردی گئیں حالانکہ یہ افسران کراچی اور کراچی کی گلیوں کا علم تک نہیں رکھتے۔
وزیراعلیٰ اور ان کے وزراء کچھ نہ کرکے بھی بہت کچھ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ دوسرے اصول، قانون پسند اسپکٹر جنرل پولیس کو ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عمل وہ اپنے وزراء کی شکایات پر کررہے ہیں۔ یہ وزیر اس قدر بے بس وزیر ہیں کہ ایک پولیس افسر کے خلاف قانونی کارروائی بھی نہیں کراسکتے البتہ پولیس کے ان افسران کا تبادلہ کرانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ سندھ کابینہ کے جس رکن امتیاز شیخ کی شکایت پر آئی جی کے خلاف محاذ بنایا گیا ہے وہ امتیاز شیخ پیپلز پارٹی کا پرانا مخالف رہا اور بے نظیر بھٹو بھی انہیں سخت ناپسند کیا کرتی تھیں کیونکہ امتیاز شیخ سابق و مرحوم وزیراعلیٰ جام صادق کے سیکرٹری تھے جن کے بارے میں اس دور میں مشہور تھا کہ اصل وزیراعلیٰ امتیاز شیخ ہی ہیں۔ مگر آج بے نظیر بھٹو نہیں ہیں مگر ان کی پارٹی میں ان کا مخالف ان کی حکومت کا ناک کا بال بنا ہوا ہے۔۔۔ کیسے؟ جمہوریت سے اور جمہوریت میں آمریت کا لبادہ اوڑھ کر پیپلز پارٹی کو کنٹرول کرنے والے مجرمانہ ذہن کے رہنما یا رہنمائوں کی وجہ سے۔۔ جب ایسے لوگ ہمارے جمہوری نظام میں ہوںگے تو قانون کی عمل داری ممکن ہوسکے گی؟ قانون کی حکمرانی کے بجائے یہاں ایسے ہی مجرم اذہان کی حکمرانی چلتی رہے گی اور ہم سب تماشا دیکھتے اور بنتے رہیں گے۔