سی پیک کی بطخ

346

 دنیا کے کم ازکم دوملکوں امریکا اور بھارت کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کی مثال ستر اور اسی کی دہائی کے ’’اسلامی بم‘‘ کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان امریکا کے ساتھ کمیونسٹ خطرے اور سرخ لاوے کی پیش قدمی کے خوف اور تفکرات کے مشترکہ رشتے میں بھی بندھا ہوا تھا مگر امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی خفیہ اور ملفوف ومستور کوششوں کو شک کی نگاہ سے ہی نہیں دیکھتا تھا بلکہ ہر دم رکاوٹ ڈالنے کے لیے بھی تیار ہوتا تھا۔ بھارت کا دکھ تو قابل فہم تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول سے خطے میں طاقت کا توازن قائم ہونا تھا اور یہ خطے میں بھارت کی یک طرفہ بالادستی کے تصور کی موت تھی۔ بھارت اپنے تصور اور خوف میں حق بجانب تھا کہ اعلانیہ ایٹمی صلاحیت بن جانے کے بعد پاکستان بھارت کے خوف اور بالادستی کی کمند کب کا دور پھینک چکا ہے۔ اب بھارت کو پاکستان پر جارحیت سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے بلکہ دہائیوں سے اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ بھارت کا آپریشن کولڈ اسٹارٹ بھی اسی ڈیٹرنٹ کی وجہ سے فائلوں میں خستہ اور کرم خوردہ ہو کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے حق سے محروم رکھنے کی امریکی خواہش قطعی عجیب تھی۔ یہ خواہش بڑھتے بڑھتے بہت خونیں بھی ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اورپاکستان میں اس پروگرام کا آغاز کرنے والے، اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے اور اس کی تکمیل کرنے والے جلد یا بدیر غیر فطری انجام کا شکارہوتے رہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے زمانے بھر کی معاندانہ روش کے باجود نہایت جرات اور استقامت کے ساتھ اس منصوبے کی تکمیل کی۔ وہ امریکا کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل کر کڑے لمحات کو ٹالتے رہے۔ دبائو کا مقابلہ بھی کرتے رہے۔ حالات کی پتلی گلی سے ہر دم نکلنے کی کوشش کرتے رہے کیونکہ 1971 کے سانحے کے بعد پاکستانیوں کی قومی اور اجتماعی نفسیات میں یہ بات جاگزیں ہو چکی تھی کہ بھارت کی روایتی طاقت کا مقابلہ پاکستان کے بس میں نہیں اس لیے غیر روایتی طاقت اور حکمت عملی ہی سے اس مستقل خطرے کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
1985میں جب کمیونزم کے خلاف پاکستان اور امریکا کا یارانہ ابھی پورے جوبن پر تھا امریکا نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کی کوششوں سے ناراض ہو کر پریسلر ترمیم کے نام پر پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ 1987 میں پاکستان نے دنیا بالخصوص اپنے دور ونذدیک کے مہربانوں کو دانستہ یہ سرپرائز دے دیا تھا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اس پرگروام کو کیپ کروانے کے لیے اپنی مہم سے باز نہیں آیا۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں امریکا نے اپنی کوششوں میں تیزی پیدا کی اور اس مہم کے دوران پہلے امریکی اسٹیفن سولارز نے پاکستان کا دورہ کرکے پاکستان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مسٹر سولارز بھارت کے ساتھ پاکستان کا معاملہ طے کروانے کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک فارمولہ بھی لے کر آئے جو کشمیر کی ایک خودمختار ریاست کے گرد گھوم رہا تھا مگر یہ محض وقتی طور پر دکھائی جانے والی گاجر تھی۔ اسٹیفن سولارز کے بعد ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر رابرٹ گیٹس اسلام آباد آئے اور پھر ان کا صدر غلام
اسحق خان سے وہ مکالمہ ہوا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ رابرٹ گیٹس نے غلام اسحق خان کو کہا جناب صدر اگر آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کوئی جاندار شے بطخ کی طرح آوازیں نکالتی ہے بطخ کی طرح نظر آتی ہے اور خود کو بطخ کہتی ہے تو پھر اسے بطخ ہی ماننا ہوگا۔ رابرٹ گیٹس کا اشارہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاکستان کے ایٹم بم حاصل کرنے کی کوششوں سے انکار مسلسل کی جانب تھا۔ جس پر اسحاق خان نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا تھا مسٹر گیٹس اگر میں گھر کے سربراہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ یہ بطخ نہیں ہے تو پھر یہ بطخ نہیں ہے۔ امریکا کے اس دبائو اور دائو پیچ کے اندر پاکستان اپنے لیے راستے بناتا آگے بڑھتا گیا۔ امریکا کا دبائو بڑھتا اور گھٹتا رہا پاکستان کے انکار کی لے کبھی دھیمی اور کبھی تیز ہوتی رہی یہاں تک کہ پاکستان باضابطہ ایٹمی طاقت بن گیا۔
امریکا کی معاون اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز دورہ ٔ پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کے معاملے میں بالکل اسی انداز سے بول پڑیں جیسا کہ ستر اور اسی کی دہائیوں میں امریکی اسلام آباد آکر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہدف تنقید اور مرکز ِ تشویش بناتے۔ اس وقت بھی انداز بھیڑیے اور میمنے کی اس انگریزی حکایت کی طرح ہوتا کہ پانی گدلا کیوں کر رہے ہو؟۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھارت کا رویہ اس وقت قابل فہم تھا اور سی پیک کے معاملے میں بھارت کے اعتراضات کی اپنی اہمیت ہے کہ دونوں ملک کھلی محاذ آرائی کے ساتھ چلتے چلے آرہے ہیں۔ ایٹمی پروگرام سے سی پیک تک امریکا کی مخاصمانہ روش محض بھارت کے ’’شاملِ باجا‘‘ ہونے والی بات ہے۔ ایلس ویلز نے سی پیک میں کرپشن اور اس کے قرضوں سے پاکستان کی معیشت پر بوجھ پڑنے والے روایتی الزام کو دہرایا۔ جس پر چین کے نمائندوں نے جواب آں غزل کے طور پر جم کر قوالی گائی۔ پاکستان میں سی پیک کو ملک کے مستقبل اور معاشی حالات کے حوالے سے گیم چینجر سمجھا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان اس امکان سے کس حدتک فائدہ اُٹھانے اور اسے محض ایک گزرگاہ کے بجائے روشن مستقبل کی بنیاد بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ مگر یہ پاکستان کے لیے امکانات کا ایک دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ مناسب منصوبہ بندی اور بہتر حکمت عملی سے ترقی کے سفر میں پاکستان چین جیسی طاقت کے ہم قدم اور ہم رکاب ہو سکتا ہے۔ امریکا اس منصوبے کو چین اور بھارت کی آویزش کے زاویے سے دیکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عالمی اقتصادی اداروں پر چین یا کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امریکا کا اثر رسوخ ہے۔ یہی ادارے کسی بھی ملک کی کلائی مروڑنے کی صلاحیت کے حامل ہیں اور پاکستان بھی اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان امریکا کے ساتھ کھلی محاذ آرائی کا متحمل ہوسکتا ہے نہ چین کے ساتھ اپنے مشترکہ منصوبوں کو ترک کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے حالات نے پاکستان کو ستر اور اسی کی دہائی میں لاکھڑا کیا ہے۔ امریکا اپنے اعتراضات سے ہٹتا ہوا نظر آتا ہے نہ پاکستان اب اس منصوبے سے پیچھے ہونے کو تیار ہے۔ اس منصوبے کی جو قیمت پاکستان کو چکانا تھی وہ چکا دی ہے۔ اب صرف دبائو کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ہے۔ امریکی ’’رابرٹ گیٹس‘‘ سی پیک کو بطخ کہتے رہیں گے اور ہمارے ’’غلام اسحق خان‘‘ کہتے رہیں گے کہ یہ بطخ نہیں۔ یوں ایٹم بم سے سی پیک تک کہانی ایک ہے صرف نام اور عنوان جدا ہیں۔