ایک اور غریب کش اقدام

461

آئین میں درج ہے کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگی ۔ روزگار ، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ حکومت اپنی یہ ذمہ داریاں تو پوری نہیں کر رہی ہے اور روز بروز وہ تمام سہولتیں بھی واپس لی جارہی ہیں جو پہلے کسی نہ کسی درجے میں موجود تھیں ۔ عمران خان نیازی کے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی اسپتالوں میں علاج کی مفت سہولتیں واپس لے لی گئی ہیں اور اب ہر سرکاری طبی سہولت پر بھاری بھرکم فیس عاید کردی گئی ہے ۔ اسی طرح سرکاری یونیورسٹیوں کی حالت اس لیے ابتر ہوگئی ہے کہ عمران خان کی حکومت انہیں منظور کردہ گرانٹ مہیا کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ۔مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے ۔ صرف آٹے کی قیمت میں ہی دیکھتے دیکھتے بیس روپے فی کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔پچھلی حکومت کو اٹھتے بیٹھتے گالیاں دی جا تی ہیں جس کے دور میں آٹا 35 روپے کلو مل رہا تھا۔ سبزی ، پھل، چینی ، دالیں ، چائے کی پتی ، چاول سمیت ہر شے کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ۔ عمران خان نیازی کی احمقانہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں صنعتیں بند ہورہی ہیں اور بے روزگاری نے ہر جگہ ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔ اب حکومت نے غریبوں پر ایک اور ستم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے کہ غریب افراد جو چھابڑی لگا کر کسی نہ کسی صورت اپنی زندگی کی ڈور جوڑے ہوئے تھے ، انہیں بھی اب اس روزگار سے محروم کرنے کے لیے قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے ۔ مجوزہ قانون کے مسودے کے مطابق اب چھابڑی فروشوں کو لائسنس جاری کیے جائیں گے اور بغیر لائسنس کے چھابڑی لگانا غیر قانونی تصور ہوگا ۔ اس کی فیس پانچ سو روپے ماہانہ تجویز کی گئی ہے ۔ مسودہ کے مطابق لائسنس یافتہ یہ چھابڑی فروش صرف اجازت والی جگہوں پر چھابڑی لگا سکیں گے جبکہ انہیں جگہ جگہ پھر کر اپنا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور 14 سال سے کم عمر فرد چھابڑی نہیں لگا سکے گا۔عمران خان نیازی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کیے جانے والے اقدامات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا کردار پاکستانی عوام کا نمائندہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ وہ آئی ایم ایف کے ایک ملازم کا کردار ادا کررہے ہیں اور غریبوں کا خون نچوڑنے پر مامور ہیں۔ جس ملک میںسوشل سیکوریٹی نام کی کوئی چیز ہی موجود نہ ہو ، سرکار طبی و تعلیمی سہولتیں عملی طور پر واپس لی جا رہی ہو ، وہ حکومت کس طر ح سے اس طرح کے ظالمانہ اقدامات کرسکتی ہے ۔ حیرت اور افسوس تو اب سارے ہی ارکان اسمبلی اور سینیٹ پر ہوتی ہے جو ایسے تمام قوانین کو آنکھ بند کرکے منظور کردیتے ہیں ۔ خود تو عمران خان کی اپنی یہ حالت ہے کہ وہ شکوہ کرتے ہیں دو لاکھ روپے میں ان کا گزارا نہیں ہوتا چنانچہ ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق تنخواہ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔اس تنخواہ میں وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے ، انہیں سارے ملازم اور بجلی ٹیلی فون و گیس حکومت کی طرف سے مفت ملتے ہیں۔ پٹرول اور گاڑیاں سرکاری ہیں ، دیگر سہولتیں اور الاؤنس اس کے علاوہ ہیں ۔ غیر ملکی دورے دوستوں کے چندے سے کرتے ہیں۔ ایوان وزیر اعظم کا یومیہ بجٹ لاکھوں روپے کا ہے۔ جبکہ چند سو روپے یومیہ کمانے والے مزدور کو گھوم پھر کر اپنی روزی کمانے سے بھی محروم کیا جارہا ہے ۔ لائسنس کی شرط کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بلدیاتی ملازمین اور پولیس ان چھابڑی فروشوںپر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑے گی اور انہیں مطلوبہ رشوت نہ پیش کرنے پر بند کردیا جائے گا ۔ ان غریب افراد کے پاس نہ تو وکیل کرنے کے پیسے ہوں گے اور نہ ہی عدالت کے چکر کاٹنے کے ، اس طرح سے یہ ناکردہ جرم میں برسوں جیل میں سڑتے رہیں گے اور ان کے بیوی بچے بھوکوں مریں گے ۔ کیا عمران خان اور ارکان اسمبلی اور سینیٹ کو اندازہ ہے کہ وہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی کو جرم کی دنیا میں دھکیلنے کے مرتکب ہونے جارہے ہیں ۔ قانونی روزگار سے محروم یہ افراد جرائم پیشہ کسی بھی تنظیم کے لیے بہترین اثاثہ ہوتے ہیں ۔ بھوک کی آگ میں جلتے ہوئے یہ افراد خود کش بمبار بھی بننے کو تیار ہوجاتے ہیں اور کسی علیحدگی پسند تحریک کا سرگرم رکن بھی ۔ایک طرح سے یہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازش ہے جس پر عمران خان کو لانے والے سلیکٹروں کو بھی سوچنا چاہیے ۔ پاکستان تحریک انصاف تو عمران خان کی لونڈی ہے جس کے اراکین سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ عمران خان کا اپنا یہ حال ہے کہ انہیں ہر حال میں صرف اقتدار چاہیے لیکن دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی کیا ہر احساس سے عاری ہوچکے ہیں جو اس طرح کی قانون سازی کی جارہی ہے ۔ ساری ہی پارٹیوں کے نمائندوں کو اس مجوزہ قانون کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے کہ یہ کسی ایک فرد کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستانی عوام اور وطن کے خلاف ہے جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔ ایسے اقدامات کے ذریعے عمران خان نیازی بڑے بڑے سپر اسٹوروں کو تحفظ دے رہے ہیں جس سے غریب مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوگا ۔ اسیا لگتا ہے کہ عمران خان نیازی نے غربت کے بجائے غریبوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کردیا ہے ۔ سول سوسائٹی کا کام تو محض بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے غیر متعلقہ مسائل پر موم بتیاں روشن کرنا رہ گیا ہے ۔ تاہم عوامی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں اور ایسے عوام دشمن قوانین کو اسمبلی ہی میں نہ صرف مسترد کردیں بلکہ حکمرانوں پر بھی واضح کردیں کہ ایسے اقدامات کے نتائج ان کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوں گے ۔