ابو کی سلامتی، سب کی دُعا

360

جب مریم نواز اور بلاول میدان سیاست میں نکلے تو پی ٹی آئی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ دونوں بچے ابو بچائو مہم پر نکلے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے مریم اور شہباز شریف کے لیے حمزہ میدان میں آگئے۔ پھر زرداری کے لیے بلاول میدان میں آئے اور جب یہ پھیلتی ہوئی آگ واپس عمران خان کی طرف آگئی لیکن انہیں بچانے کے لیے ابو حضور میدان میں آگئے تھے اور انہیں صاف بچا کر لے گئے، لیکن چوں کہ یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے، چناں چہ ابو کو بھی ضرورت پڑی تو عمران خان ابو بچائو مہم پر نکل پڑے، چوں کہ انہیں فل سپورٹ تھی اس لیے زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام بڑی بڑی جماعتوں نے سب کی مشکل حل کر ڈالی۔ ابو بچائو مہم کا نعرہ یوں ہی گھومتا ہوا کے پی کے پنجاب اور بلوچستان جا پہنچا۔ اب ایک ہی دن میں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں… ابو… ابو!!! ابو… بچائو… بچائو… بچائو… اور ابو حرکت میں آگئے۔ چناں چہ ابو نے تین مینڈھے قربان کیے، 9 کی رسی کھینچ لی اور اخبارات میں خبر لگی کہ تینوں کو ابو نے بچالیا۔ کِلّے مضبوط کرلیے گئے تینوں بچ گئے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن اکثر ایک لفظ استعمال کرتے تھے تابکے۔ تو آج ابو نے سب کو بچالیا لیکن تابکے (کب تک) بڑے فخر سے بتایا گیا کہ تینوں صوبوں کے وزرا کے اعلیٰ کا کِلّہ مضبوط ہوگیا ہے۔ غداری کے مرتکب تین وزرا برطرف ہوئے اور پنجاب والوں کو بھی کان ہوگئے۔ لیکن جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ جو لوگ حکومت کے خلاف گروپ بنارہے ہیں ان کے بھی کوئی نہ کوئی ابو ہوں گے۔ یہ تو بعد میں پتا چلے گا کہ ان کے بھی ابو وہی ہیں جو سب کے ہیں۔
جن لوگوں کو غدار قرار دیا گیا ان کا کہنا ہے کہ سازش ہم نے نہیں کی بلکہ ہمارے خلاف کی گئی۔ ہم تو کابینہ کے اجلاسوں میں غلط کاموں کی نشاندہی کرتے تھے۔ ان بے چاروں کو کون سمجھائے کہ غلط کاموں کی نشاندہی کرنا ہی تو غداری ہے۔ آپ کسی کے غلط کام کی نشاندہی کریں، غدار ہی کہلائیں گے۔ حکومت کے خلاف کریں تو ملک دشمن اور ریاست کے کسی ادارے کے خلاف بات کریں تو غدار، ملک دشمن اور دہشت گرد سب کچھ۔ تو ان غداروں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اگر غلط کاموں کی نشاندہی گناہ سے تو ہم یہ گناہ کرتے رہیں گے۔ ان لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ تازہ بحران کے پیچھے پرویز خٹک ہیں۔ اس سارے گھن چکر یا سیاسی پہیے کے گھومنے سے پتا چلتا ہے کہ مریم نواز، بلاول اور حمزہ شہباز نے غلط نہیں کیا۔ ہر ایک کو اپنے ابو بچانے کا حق ہے اور پھر ابو کو اپنے بچے بچانے کا۔ چناں چہ اب نیا سیاسی ترانہ پرانے اشتہار سے نکال کر بنایا جانا چاہیے۔
اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔
اور اب تو یہ اجتماعی مسئلہ ہے اس لیے اسے سب کا مسئلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب سیاسی فقیر بھی یہ نعرہ لگائے گا۔
سب کا بھلا… سب کی خیر۔ سب کے ابو رہیں بخیر…
اب ایک نیا قضیہ کھڑا ہوگیا ہے، جو تھا تو پرانا یعنی آئی جی سندھ کا معاملہ پہلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ آئی جی کے نام پر متفق ہوگئے اب یوٹرن لے لیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ آئی جی کی تقریر پر سعید غنی گرم ہوگئے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئی جی نے تقریر کردی۔ حالاں کہ آئی جی تقریر نہیں کرتا۔ یہ بات سعید غنی کو ابو سے پوچھنی چاہیے، آئی جی کسی تقریب سے خطاب کررہا ہو تو اسے آئی جی کا خطاب نہیں کہتے یہ ایک تقریب تھی۔ لیکن الزام یہ ہے کہ آئی جی نے جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب یہ بنا کر ان کے سر پر کسی کا ہاتھ ہے۔ یہ بات سعید غنی صاحب کو اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ ہاتھ تو ابو ہی کا ہوگا۔ ارے سعید غنی صاحب یہاں تو پورا نظام اسی طرح چل رہا ہے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور ابو کے ہاتھ میں سب کا ہاتھ کے مصداق پیچھے ابو جی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کلیم امام کو بھی ابو کی سرپرستی حاصل ہے وہ اپنا کام مکمل کرکے ہی آئی جی کا منصب چھوڑیں گے۔ بس حکومت سندھ کو تیار رہنا چاہیے کہ آئی جی وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور جو شکایات سعید غنی کو ان سے تھیں اگر ان سے صوبے ہی میں نمٹ لیا جاتا یا آئی جی سے مل کر ازالہ کرلیا جاتا۔ دوسرے الفاظ کے استعمال کا محل نہیں ورنہ خوامخواہ میں کہہ دیا جائے گا کہ حکومت اور آئی جی کے مک مکا کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اب تو معاملہ وفاق تک پہنچ گیا ہے۔ کلیم امام ساری رپورٹیں وفاق تک پہنچادیں گے ۔ سعید غنی جتنا مرضی چیخیں بات تو ابو تک پہنچے گی۔ اب ابو بھی مطمئن ہیں فوری طور پر کوئی مسئلہ نہیں، اس لیے آئی جی کی تبدیلی سے پہلے ساری رپورٹیں آفیشل طریقے سے وفاق کو مل جائیں گی پھر نیا آئی جی آجائے گا۔ لیکن ایک آئی جی کے آنے جانے سے عوام کے باپ کا کیا جاتا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اسی طرح جاری ہیں، ڈکیتیاں بھی جاری ہیں، بلکہ بڑھ رہی ہیں اور یہ کام بھی حکومتی اداروں نے سنبھال لیا ہے کسی نہ کسی بہانے عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ سب کے ابو سلامت ہیں لیکن عوام کے اماں ابا دونوں مرگئے۔ پورے ملک کے عوام یتیم سے ہوگئے ہیں۔