امریکا نے ایک بار پھر پاک چین تعلقات کے گرد رقصِ ابلیس شروع کردیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکا کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز پاکستان کے چار روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں اور انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کا قرض چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ سی پیک میں اپنی شمولیت پر غور کرے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں میں شفافیت نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چین کے قرضے پاکستان کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ سی پیک کے سلسلے میں ایسے اداروں سے معاہدے کیے گئے ہیں جنہیں عالمی بینک نے ’’بلیک لسٹ‘‘ کیا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے ایلس ویلز کے خیالات کو سی پیک کے خلاف منفی پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ چینی سفارت خانے نے کہا کہ پابندیوں کی چھڑی گھمانے والا امریکا خود ہے۔ چینی سفارت خانے کے بقول امریکا جو کچھ کرتا ہے اپنے مفادات کے لیے کرتا ہے۔ عالمی معیشت کے لیے نہیں۔ چینی سفارت خانے نے کہا کہ چین کسی پر بھی قرضوں کی واپسی کے لیے دبائو نہیں ڈالتا اور وہ کبھی اس سلسلے میں پاکستان سے کوئی نامعقول مطالبہ نہیں کرے گا۔ چینی سفارت خانے نے کہا کہ امریکا کی ریاضی کمزور اور نیت خراب ہے۔ چینی سفارت خانے نے سوال کیا کہ ایلس ویلز بتائیں کہ وہ پاکستان کے لیے کون سی امداد لے کر آئی ہیں؟۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکا کے دانشور کہا کرتے تھے کہ بیسویں صدی بھی امریکا کی تھی اور اکیسویں صدی بھی امریکا کی ہوگی۔ مگر 21 ویں صدی کے آغاز ہی میں امریکا کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر اُبھر چکا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ پانچ سے سات سال میں وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگی۔ چین کی غیر معمولی اقتصادی طاقت نے امریکا سمیت تمام مغربی ممالک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت چین کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے تین ہزار ارب ڈالر ہیں جب کہ امریکا دنیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ رکھنے والے دس بڑے ملکوں تک میں شامل نہیں۔ امریکا اب تک چین کے ساتھ ساڑھے تین سو ارب ڈالر خسارے کی تجارت کرنے پر مجبور تھا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورت حال کو ایک حد تک بہتر بنایا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا اور چین کے درمیان معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس سے امریکا کو تقریباً 200 ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پورا افریقا امریکا کے ساتھ سے نکل کر چین کے ہاتھ میں جاچکا ہے۔ یورپ ابھی امریکا کے ساتھ کھڑا ہے مگر یورپ چین کی اقتصادی طاقت سے مرعوب ہوچکا ہے اور امریکا اور چین کی کشمکش میں اس طرح امریکا کا ساتھ نہیں دے رہا جس کی توقع کی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی چین کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ چین سری لنکا، بنگلا دیش اور برما کے ساتھ بڑے بڑے اقتصادی منصوبے شروع کرچکا ہے۔ نیپال کے ساتھ اس کے اقتصادی روابط بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ لیکن امریکا کے لیے اصل مسئلہ سی پیک ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو نہ صرف یہ کہ متبادل تجارتی راستہ مہیا ہوجائے گا بلکہ مشرق وسطیٰ سے تیل کی درآمد کے حوالے سے ہونے والے اس کے اخراجات میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہوجائے گی۔ اس سے بھی اہم معاملہ تزویراتی ہے۔ امریکا چین کے مقابلے کے لیے بھارت کو چین کی ہم پلّہ قوت بنا کر اُبھارنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔ امریکا مدتوں سے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ خطے میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرے اور اس کی باج گزار ریاست بن کر رہنا قبول کرے۔ سی پیک کے حوالے سے خیال یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی معیشت قدرے بہتر ہوگی بلکہ امریکا پر اس کا انحصار بھی کم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک سے باہر آجائے۔
پاکستان کے لیے بہترین بات یہ تھی کہ وہ نہ امریکا کا محتاج ہوتا نہ چین کا دست نگر ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے قوم کو صرف امریکا اور یورپ ہی کا نہیں چین اور سعودی عرب کا بھی دست نگر بنایا ہوا ہے۔ چناں چہ پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کے لیے قوم کو ایک طویل جدوجہد کرنی ہوگی۔ لیکن جہاں تک سی پیک پر امریکا کے اعتراضات کا تعلق ہے تو چین پر امریکا کا اعتراض ایسا ہی ہے جیسے ایک عادی ڈاکو اور قاتل کسی ’’ممکنہ گرہ کٹ‘‘ پر اعتراض کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی معیشت نہیں بنایا۔ امریکا نے پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی معیشت بنایا ہے۔ اس وقت پاکستان 186 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور یہ سارے قرضے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ہیں اور یہ دونوں ادارے امریکا کا ’’اقتصادی ہتھیار‘‘ ہیں۔ چناں چہ امریکا کی اس بات میں کوئی اخلاقی وزن نہیں ہے کہ چینی قرضے پاکستان کے لیے معاشی بوجھ ثابت ہوں گے۔ چین کے قرضے اگر بوجھ ثابت بھی ہوئے تو ایسا دس بارہ سال بعد ہوگا۔ مگر ہماری معیشت گزشتہ چالیس سال سے امریکی قرضوں کے بوجھ تلے بُری طرح دبی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ رواں مالی سال میں پاکستان کے بجٹ کا نصف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکا کے قرضے ہمارا آدھا بجٹ کھارہے ہیں مگر امریکا کو اس صورتِ حال پر نہ کوئی تشویش ہے اور نہ وہ پاکستان کو اس صورتِ حال سے نجات دلانے کے لیے کچھ کررہا ہے۔ البتہ چین کے اس قرض پر اس کو سخت اعتراض ہے جس کی ادائیگی آٹھ دس یا پندرہ بیس سال کے بعد شروع ہوگی۔
امریکا صرف قرض نہیں دیتا ان کے ساتھ اس کی ’’شرائط‘‘ بھی آتی ہیں۔ مثلاً آئندہ تین برسوں میں پاکستان کے اندر گیس اور بجلی کے نرخ یہ ہوں گے، محصولات کی شرح یہ ہوگی، محصولات جمع کرنے کا ہدف یہ ہوگا، بجٹ کی ترجیحات یہ ہوں گی۔ یہ صورتِ حال مدتوں سے چلی آرہی ہے، یعنی امریکا نے ہمیں صرف سیاسی غلام نہیں بنایا ہوا بلکہ اس نے ہمیں اپنا معاشی غلام بھی بنالیا ہے۔ مگر ایلس ویلز پاکستان پر امریکا کے اس ظلم پر کلام نہیں کر رہیں، وہ گفتگو کررہی ہیں تو سی پیک پر، پاکستان کے لیے چینی قرضوں پر۔
پاکستان میں امریکا کی معاشی مداخلت کا یہ عالم ہے کہ عرصے سے ہمارا وزیر خزانہ بھی امریکا سے آرہا ہے، اس وقت تو پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی امریکا سے آیا ہوا ہے، بلکہ کہنے والے تو سی بی آر کے سربراہ شبر زیدی کو بھی امریکا کا آدمی کہتے ہیں۔ مگر ایلس ویلز ان معاملات پر بھی زبان نہیں کھولتیں۔ وہ زبان کھولتی ہیں تو سی پیک پر۔
سی پیک پاکستان کا ’’داخلی معاملہ‘‘ ہے اور امریکا کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے۔ چناں چہ اصولی اعتبار سے تو پاکستان کے اعلیٰ اہلکاروں کو ایلس ویلز کے زیر بحث بیان کے بعد ان سے ملاقات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی اور اگر ملاقات مجبوری تھی تو انہیں ملاقات میں ایلس ویلز کے بیان پر ان سے سخت باز پرس کرنی چاہیے تھی۔
امریکا کا اعتراض ہے کہ سی پیک کے معاملات ’’شفاف‘‘ نہیں مگر امریکا تو خود غیر شفاف معاملات کے لیے بدنام ہے۔ امریکا نے سابق سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے بڈھ بیر میں خفیہ ہوائی اڈا بنایا اور پاکستانی قوم کیا خود جنرل ایوب کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ امریکی جہاز پاکستان سے اُڑ کر سوویت یونین کی جاسوسی کررہے ہیں۔ جب سوویت یونین نے امریکا کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا تو دنیا کو معلوم ہوا کہ امریکی ’’غیر شفاف‘‘ طریقے سے کیا کررہے ہیں۔ کہنے کو سیٹو اور سینٹو دفاعی معاہدے تھے مگر اصل میں جتنے ممالک بھی سیٹو اور سینٹو کا حصہ تھے وہ امریکا کے لیے ’’کرائے کے فوجی‘‘ کا کردار ادا کررہے تھے۔ یہاں بھی امریکی ’’غیر شفاف‘‘ طریقے سے کام کررہے تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے غیر شفاف طریقے سے پاکستان کے کئی ہوائی اڈوں کو قبضے میں لے لیا تھا۔ جنرل پرویز کے دور میں سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ہزاروں اہلکار نہایت ’’غیر شفاف‘‘ طریقے سے پاکستان آئے۔ چناں چہ امریکی سی پیک کے معاملات کو غیر شفاف کہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ باالفرض محال اگر سی پیک کے معاملات غیر شفاف بھی ہیں تو یہ پاکستان کا دردِ سر ہے امریکا کا دردِ سر نہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پوری مغربی دنیا بالخصوص امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف سازشیں کیں۔ پاکستان نے جب سے بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے جواب میں جھوٹے ایٹم بم بنائے ہیں۔ امریکی خفیہ ملاقاتوں میں انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ ایف 16 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا اور اس سے مکر گیا۔ یہاں تک کہ امریکا اس سلسلے میں پاکستان کے ایک ارب ڈالر بھی بارہ سال تک نہ لوٹائے۔ بالآخر لوٹایا تو ایک ارب ڈالر کا سویا بین آئل لوٹایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام باشعور لوگ امریکا کو زمین کا سب سے بڑا شیطان تصور کرتے ہیں اور انہیں سی پیک کے سلسلے میں امریکا کی بکواس بالکل اچھی نہیں لگ رہی۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ چین مستقبل میں ایک استعماری طاقت بن سکتا ہے۔ مگر امریکا تو اپنے قیام کے پہلے دن سے ایک استعماری طاقت ہے۔ چین مستقبل میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرسکتا ہے مگر وہ گزشتہ 70 سال سے پاکستان کا دوست چلا آرہا ہے۔ اس نے زندگی کے ہر دائرے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ امریکا نے آج تک پاکستان کو سوئی بنانے کی ٹیکنالوجی بھی نہیں دی۔ چین نے پاکستان کو جے ایف 17 جیسے جدید طیارے کی ٹیکنالوجی منتقل کی ہے۔ چناں چہ پاکستانیوں کے لیے چین اور امریکا میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ ہو تو پاکستان کو چین کا انتخاب کرنا چاہیے۔