بھارت کو پاک فوج کا جواب

458

بھارتی فوج اور حکومت کی جانب سے غیر ذمے دارانہ بیانات دیے جا رہے ہیں۔ وہ بار بار پاکستان پر حملے کی بات کر رہے ہیں اور دس روز میں پاکستان کو ختم کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اس پر پاک فوج کے ترجمان نے جواب دیا کہ ہم انہیں پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ جنگ وہ شروع کریں گے ختم ہم کریں گے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا ممکنہ طور پر بطور ترجمان یہ آخری بیان تھا۔ وہ اس سے پہلے بھی یہ بات کہہ چکے ہیں اور پاکستانی فوج کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ بھارت کی کسی بھی مہم جوئی پر اسے سبق سکھایا جائے گا۔ ابھی گزشتہ برس فروری کا طمانچہ تو بھارت بھولا نہیں ہوگا۔ جب جب ابھینندن سامنے آتا ہوگا بھارتی فوج اور حکمرانوں کو وہ طمانچہ یاد آتا ہوگا۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارتی فوج 80 لاکھ کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکی۔ 21 کروڑ پاکستانیوں کو کیسے شکست دے گی۔ پہلے بھارت کشمیریوں سے تو لڑ لے۔ انہوں نے بجا کہا کہ بات سات یا دس دن کی نہیں بلکہ اس کے پہلے اور بعد کی ہے۔ انہوں نے اپنے حوالے سے بھی کہا کہ بھارتی میرے جانے سے خوش ہیں تو یہ میرے لیے اعزاز ہے۔ میجر جنرل آصف غور نے یہ بھی درست کہا کہ پاک فوج اسلحہ کے زور پر نہیں جذبۂ ایمانی اور عوامی حمایت سے لڑتی ہے۔ جہاں تک بھارتی جنرل اور وزیراعظم کی دھمکیوں کا تعلق ہے تو اسے گیدڑ بھبھکی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت ایک مکار دشمن ہے وہ پاکستان کے وجود سے انکار کرتا ہے لہٰذا سات یا دس روز میں کچھ کرنے کے بجائے کوئی نہ کوئی شر انگیزی ضرور کرسکتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل اس کو بہت موثر سبق سکھایا جا چکا ہے لیکن کشمیر میں 5 اگست کا اقدام، بابری مسجد کا فیصلہ اور متنازع قانون شہریت یہ سب اقدامات بھارت کی ہمت افزائی کا سبب بنے ہیں اور پاکستان کی جانب سے ڈھیلا ڈھالا ردعمل ملنے کی وجہ سے ان کی یہ ہمت ہو رہی ہے کہ آزاد کشمیر پر حملے کی بات کرتے کرتے اب پاکستان ہی کو ختم کرنے کی بات کرنے لگا ہے۔ البتہ یہ بھی پاکستان اور بھارتی حکمران اور فوج اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ نہیں ہوگی۔ اس کے اسباب مختلف ہوں گے لیکن نتیجہ یہ نکلتا نظر آرہا ہے کہ جنگ کے امکانات کم ہیں۔بیانات اور جوابی بیانات سے قطع نظر ان بیانات کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ دھمکیاں دینے اور شر انگیزی کی بھی ہے، اور سب سے بڑا کام تو اس نے 1965ء میں یہ دھمکی دے کر کیا تھا کہ اب ہماری مرضی کے میدان میں جنگ ہوگی اور صرف چھ برس میں اس نے سازشوں کا جال بن کر مشرقی پاکستان ہم سے چھین لیا۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے بھارتی ٹینک میرے سینے پر سے گزر کر ڈھاکا پہنچیں گے یا ہزار سال تک جنگ لڑنے کی باتیں ہی ہو رہی تھیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ جنگ چھیڑنے سے زیادہ اس کا اختتام عبرتناک اور شرمناک تھا۔ آصف غفور صاحب بھی جاتے جاتے قوم کے زخم ہرے کرگئے۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ بھارت نے چھیڑی تھی اور اس کو ختم پاکستان نے کیا تھا لیکن کس طرح۔ یہ بڑی شرمناک کہانی ہے۔ جنگ ختم کرنے کا ریکارڈ بہت بھیانک ہے۔ آصف غفور صاحب تو بیان دے کر چلے گئے لیکن قوم بہرحال خدشات کا شکار ہے۔ اس بات سے تو کوئی انکار بھی نہیں کرتا بلکہ اس پر سب متفق ہیں کہ پاک فوج ایمانی جذبے، عوامی تعاون اور حمایت سے جنگ لڑتی ہے۔ پاک فوج کی کامیابیاں اسی جذبے کی رہین منت ہے۔ پاکستانی قوم پاک فوج پر پورا بھروسا کرتی ہے لیکن قوم کو یہ اعتماد نہیں ملتا۔ پاکستان پر بھارت نے بہت سے قرض چڑھا رکھے ہیں وہ اتارنے ضروری ہیں۔ ایک جنرل نیازی کے ہاتھوں جنرل اروڑا کو دیا گیا پستول واپس لانا، دوسرے کشمیر پر بھارتی قبضہ ختم کرانا، تیسرا اور سب سے بڑا قرض یہ ہے کہ اسّی کے عشرے والا اعتماد بھارتی مسلمانوں کو اب حاصل نہیں ہے بھارتی مسلمانوں کو وہ اعتماد واپس دلانا بھی ضروری ہے یہ اعتماد بھارت کے ٹکڑے کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے بڑی ہمت اور محنت کی ضرورت ہوگی۔