لیاقت بلوچ کی آواز

350

بانی پاکستان محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اسرائیل انگریز کا ناجائز بچہ ہے‘ انہوں نے بالکل سچ کہا تھا‘ یہ ناجائز بچہ ہی نہیں بلکہ غلاظت ہے، اسی غلاظت سے ملنے کے لیے جنرل مشرف بے چین رہتے تھے‘ کچھ اخبار نویس بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر فخر کرتے تھے یہ سچ ہے کہ غلاظت ہی غلاظت تک پہنچتی ہے‘ ابھی حال ہی میں امریکا نے ایک بار پھر امن فارمولا دیا ہے‘ جن ملکوں نے اسے قبول کیا ان کے اپنے مفادات ہیں تاہم پاکستان نے اسے مسترد کردیا ہے بہت اچھا کیا‘ ترکی نے بھی پاکستان کی طرح سخت جواب دیا‘ فلسطین اور ایران نے بھی مسترد کیا ہے پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں میں صرف لیاقت بلوچ نے سب سے پہلے رد عمل دیا‘ کہتے ہیں کہ امریکا نے 2 ریاستی فارمولا پیش کر کے عالم اسلام کی توہین کی ہے۔ بیت المقدس قبلہ اول ہے، اس پر ناجائز قبضہ امن کی ضمانت نہیں بن سکتا پاکستانی پارلیمنٹ موثر مشترکہ احتجاجی قرار داد منظور کرے اور فوری طور پر او آئی سی کا سربراہ اجلاس فلسطین اور کشمیر ایشو پر بلایا جائے۔ ٹرمپ کی پاکستان کو چکنی چپڑی باتوں کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان امریکی صدر کے جھوٹے سحر سے باہر آئیں اور عالم اسلام کے اتحاد کا بیڑا اٹھائیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ لیاقت بلوچ کی یہ آواز پورے ملک اور عالم اسلام کی آواز بنے گی اور فلسطین کے حصے بخرے کرنے اور بیت المقدس پر اسرائیل کے مستقل قبضے کا ٹرمپ کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
عالم اسلام کو اجتماعی طور پر اس فارمولے کے جواب میں فلسطین اور بیت المقدس کی مکمل آزادی کا فارمولا دینا چاہیے ٹرمپ عالم اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا چاہتا ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، عالم اسلام کو کوئی ایسا فارمولا تسلیم نہیں کرنا چاہیے جس میں بیت المقدس کو اسرائیل کے قبضے میں دینے کی بات ہو فلسطینی صدر نے ٹرمپ فارمولے کو صدی کا تھپڑ قرار دیا ہے سعودی عرب نے ٹرمپ منصوبے کو خوش آئندہ قراردے دیا ہے یہ اس کا فیصلہ ہے ہم کسی ملک کے فیصلوں کو نہیں اپنے مفاد کی بات کرنے کے پابند ہیں سعودی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل فلسطینی تنازعے کے حل کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے آغاز کا بھی مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے تجویز کیے گئے منصوبے کے بارے میں اگر کوئی عدم اتفاق ہے تو اسے امریکی سرپرستی میں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے تا کہ ایک ایسا معاہدہ طے پا سکے جس میں فلسطینی عوام کے جائز حقوق حاصل کیے جا سکیں اطلاع کے مطابق سعودی شاہ سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کیا اور فلسطینی عوام اور فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب کے دوٹوک موقف کو دہرایا۔ ادھرپاکستان نے عالمی معیار اور 1967ء سے قبل کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کردیا ترجمان دفترخارجہ نے اپنا ردعمل دیا ہے اور ردعمل درست ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو پاکستان نے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کی ہمیشہ حمایت کی ہے، پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے فلسطین کے مسئلہ کے منصفانہ اور پائیدار حل کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے فلسطینیوں کے جائز حقوق کی فراہمی چاہتا ہے۔
امریکی منصوبے کے خلاف غزہ میں مغربی کنارے پر ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی منصوبہ ’’تاریخ کے کوڑے دان‘‘ میں جانے کے قابل ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کو ’’صدی کا تھپڑ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا کہ فلسطینی صرف عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی حمایت کی بنیاد پر مذاکرات کو تسلیم کرے گا۔ حماس کے رہنما سمیع ابوظہری نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا بیان جارحانہ ہے اور یہ غصے کو مزید بڑھائے گا۔ یروشلم سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان بکواس ہے اور بیت المقدس ہمیشہ فلسطینیوں کی زمین رہے گا، فلسطین اس منصوبے کا مقابلہ کریں گے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ پلان کیخلاف ترکی کے مختلف شہروں میں سیکڑوں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے انقرہ میں امریکی سفارتخانے اور استنبول میں امریکی قونصل خانے کے باہر سیکڑوں مظاہرین نے امریکا اور ٹرمپ مخالف نعرے لگائے۔ ترک صدر رجب طیب اردون نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کرنا کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اردن میں بھی سیکڑوں افراد نے امریکی سفارخانے کے باہر صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ پلان کے خلاف احتجاج کیا۔ ایران نے بھی اس منصوبے کو مکمل طور پرمسترد کر دیا۔ صدر حسن روحانی کے مشیر کے مطابق اسرائیل اور امریکا کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں فلسطین کہیں بھی نہیں ہے، یہ امن نہیں بلکہ پابندیوں کا منصوبہ ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے پلان کو مشرق وسطیٰ اور دنیا کے لیے ڈراونا خواب قراردیا۔