ایک عظیم ہیرو کی کردار کشی

599

نصرت علی شاہانی
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کسی پر بہتان و افتراء کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ جتنی بڑی شخصیت ہوگی تہمت و بہتان اتنا ہی سنگین جرم ہوگا۔ ان دنوں جبکہ مسلمانان عالم، فلسطین، کشمیر سمیت اسلامی تحریکوں کے راہنما، امریکا، اسرائیل اور ان کے کاسہ لیسوں کی نیندیں حرام کرنے والے عظیم مجاہد جنرل قاسم سلیمانی کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں، بعض اجرتی لکھاری اس ہیرو کی کردار کشی کا سونپا گیا ’’فرض‘‘ ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح کی شخصیات کی کردار کشی کا جرم تاریخی تسلسل ہے۔ انبیاؑ کو مفسد کہا گیا، رسول اکرمؐ کو جادوگر کہہ کر ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی باطل کوششیں ہوئیں۔ ایک رات میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرنے والے علی بن ابی طالبؓ کو شامی مسلمان ’’بے نماز‘‘ کہتے تھے۔ روزنامہ جسارت ۲۰ جنوری میں سمیع اللہ ملک کا ’’امریکی دوستی اور اس کا انجام‘‘ کے عنوان سے مضمون جنرل قاسم سلیمانی کے روشن کردار اور حقیقی اسلام کے تابناک چہرے کو دہندلانے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ایسی ہی سعی ٔ لاحاصل ہے۔ بدنام زمانہ سی۔ آئی۔ اے اور اسی قماش کے امریکیوں کی خرافات پر ایمان لاتے ہوئے مضمون نگار نے اس مجاہد جنرل کو امریکی آلہ ٔ کار ثابت کرنے پر توانائی صرف کی ہے اور ان کی رضا شاہ پہلوی سمیت چند مکروہ کرداروں سے تشبیہ دے کر غلط کام کیا ہے۔ سمیع اللہ صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ابھی تو قاتل ٹرمپ کے اعتراف جرم کی صدا کانوں میں گونج رہی ہے کہ قاسم سلیمانی ہزاروں امریکیوں کا قاتل تھا، برطانوی وزیراعظم بھی جنرل قاسم کو اپنے فوجیوں کے قتل کا ذمے دار ٹھیرا رہا ہے۔ اسرائیل و داعش کے دیگر سرپرست اپنے انتقام کا اعلان کررہے ہیں تو کس منطق کی بنا پر مضمون نگار کا بہتان درست ہو سکتا ہے؟
سمیع اللہ نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے جنرل قاسم پر ایران سے باہر ’’اپنے مفادات‘‘ کے لیے سرگرم رہنے کا الزام لگایا لیکن ان کے جنازے میں شریک لاکھوں سنی، شیعہ عراقی اس زعم باطل کی نفی کرتے ہوئے اس مرد مجاہد کو اپنا مسیحا تسلیم کرتے ہیں۔ بلاشبہ جنرل سلیمانی نے اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کو ’’اپنے مفادات‘‘ قرار دے کر اسلامی غیرت و حمیت کی وہ تاریخ رقم کی جو داعشی لابی کو تڑپا رہی ہے۔ ایران میں اسلامی حکومت کی چالیس سالہ تاریخ میں ایران، امریکا دشمنی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اقتصادی شکنجے سے لے کر جنرل قاسم کے قتل تک امریکا نے کون سی کسر چھوڑی ہے کہ ایران کی اس طاقتور ترین شخصیت کے امریکی آلہ ٔ کار ہونے کی غیر معقول تہمت کی حماقت کی جا رہی ہے۔
سمیع اللہ نے حقائق مسخ کرنے کے لیے عراق میں داعش کے خاتمے میں امریکا کے کردار کا ذکر کیا جبکہ یہ کام مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی کے حکم پر بننے والی عوامی رضاکار فورس ’’الحشد الشعبی‘‘ کے عراقی جوانوں نے جنرل قاسم اور ابومہدی کی کمانڈ میں انجام دیا۔ ایران کی طرف سے امریکی اڈے پر تباہ کن حملے اور امریکا کی بدترین پسپائی، ذلت و رسوائی اس دور کا منفرد واقعہ ہے جس میں اس فرعون کا غرور خاک میں ملا لیکن سمیع اللہ کو اسے سراہنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ جنگ ٹلنے سے مایوسی ہوئی۔ بعض حلقے یہ حسرت لیے بیٹھے تھے کہ ایران بھی ’’تورابورا‘‘ بنے گا لیکن امریکا جانتا ہے یہ قوم کرار غیر فرار کی ماننے والی ہے۔ سمیع صاحب کے حقائق کو غلط رنگ دینے کا اندازہ اس جملے سے ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت نے عوامی دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہو کرکئی میزائیل داغے۔ اسے اچھے الفاظ میں ’’تجاہل عارفانہ‘‘ کہتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت کے سرپرست متعد، ذمے دار علماء ہیں۔ ان کے فیصلے خود مختاری، غیرت و دینی حمیت کے مظہر ہوتے ہیں جو فرعون وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ذلیل و رسوا کرنے کا حوصلہ رکھتے اور عمل کر دکھاتے ہیں۔ اسلامی غیرت سے سرشار اس حکومت کا یہ شعوری شجاعانہ فیصلہ تھا جس کے پیچھے اس غیور ملت کا ہر فرد تھا جس نے عالم اسلام کا جھکا ہوا سر بلند کر دیا۔ وطن عزیز کے حوالے سے امریکی بدمعاشیوں کے بہت سے تلخ حقائق کے ذکر سے جان چھڑاتے ہوئے سمیع اللہ صاحب نے ہمارے فوجی موقف کے ذکر پر ہی اکتفا کیا کہ ہماری سرزمین کسی برادر ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ بلا شبہ پاک فوج کا عزم لائق تحسین ہے لیکن اس میں یہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ ہم ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار ہوں گے کیونکہ اسلامی تعلیمات میں ’’غیر جانبداری‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔