حکومت صرف زبان کی چیمپئن

244

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ چین میں مقیم پاکستانیوں کی سب سے زیادہ فکر وزیراعظم عمران خان کو ہے کوئی اور اس حوالے سے چیمپئن نہ بنے۔ پاکستانیوں کی فوری واپسی ممکن نہیں وہ مکمل صحتیابی تک وہیں رہیں گے، چین میں چار متاثرہ پاکستانیوں کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ مشیر خاص نے فرمایا کہ ذمے دار ملک کی طرح عالمی ایڈوائزری کی پاسداری کریں گے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 14 روز آبزرویشن میں رکھے بغیر کسی کو پاکستان واپس نہیں لایا جائے گا۔ دوسری بڑی بات انہوں نے یہ بتائی کہ تشخیصی کٹس اب پاکستان پہنچیں گی جو اتوار کو پہنچ بھی گئیں۔ اس بیماری کو پھیلے کتنے دن ہو گئے اور ان پاکستانیوں کے بارے میں اطلاعات کو دو ہفتے سے زیادہ ہونے کو ہیں۔ لیکن حکومت نے چیمپئن بننے کو چیلنج سمجھ لیا، دراصل ملک کے عوام کی دیکھ بھال ان کو سہولتیں دینا اور ان اعتماد دینا حکومتوں ہی کا کام ہوتا ہے۔ وہی اس کام کی چیمپئن بھی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کیا قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ وبائی امراض سے بچنے کے لیے حکومت کے پاس کیا انتظامات ہیں۔ کیا وبا پھوٹ پڑنے اور خرابی سر سے گزر جانے کے بعد اقدامات کیے جاتے ہیں؟ تشخیصی کٹس منگوانے میں اتنی تاخیر کیوں۔ جو ٹیسٹ ہونے تھے ان کے لیے حکومت کے پاس کیا انتظام ہے۔ سب کچھ چھوڑیں جرمنی اور دوسرے ممالک نے اپنے لوگوں کو لانے کے لیے طیارے چین بھیج دیے۔ کیا یہ غیر ذمے دار ممالک ہیں؟۔ کیا پاکستان میں چند سو افراد کو آبزرویشن میں رکھنے کے لیے دو چار مراکز نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو گھروں سے لاپتا کرکے انہیں حراستی مراکز میں رکھا جاسکتا ہے۔ وہاں بھی تو ان کو آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے۔ اگر لوگوں کو ریاست کی خاطر لا پتا کرکے بڑے بڑے حراستی مراکز میں رکھا جاسکتا ہے تو ریاست کے ذمے دار پڑھے لکھے لوگوں کی صحت کی خاطر انہیں کسی آبزرویشن سینٹر میں کیوں نہیں رکھا جاسکتا۔ کیا کسی عمارت کو اس مقصد کی خاطر خالی نہیں کرایا جاسکتا۔ ظفر مرزا صاحب نے یہ کون سی بڑی بات بتائی ہے کہ ہر پاکستانی کو وطن آتے وقت ہیلتھ ڈیکلریشن لازمی کر دیا گیا ہے۔ یہ ہیلتھ کارڈ تو برسہا برس سے لازمی ہے اس کی پابندی نہیں ہو رہی تو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اس کی پابندی نہیں ہو رہی تھی۔ چلیں اس بہانے نے ہیلتھ کارڈ ہی بھر لیا جائے گا۔ یہ تو ہر حکومت کی ذمے داری ہے کہ اپنے ملک میں آنے والے تمام لوگوں کے بارے میں اس کی وزارت صحت کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس بیماری میں مبتلا لوگ اس ملک میں داخل ہو رہے ہیں اور ناقابل علاج بیماری (جن کا کوئی وجود نہیں) کے سوا تمام بیماریوں سے بچائو کے تمام انتظامات اس حکومت کو کرنے چاہییں۔ جہاں تک چیمپئن شپ کا تعلق ہے تو عمران خان صاحب کرپشن کے خاتمے کے چیمپئن تھے۔ ڈیڑھ سال میں انہوں نے کتنی کرپشن ختم کی؟ اس کا کیا جواب دیں گے۔ کوئی اس حکومت میں ہے جو اس بات کا جواب دے سکے کہ سوائے شریف خاندان اور زرداری کے ملک میں کیا کوئی اور کرپٹ نہیں تھا۔ اور ان لوگوں سے بھی کیا وصول کیا؟ عمران خان حکومت میں آنے سے قبل ٹیکس نہ دینے کا اعلان کرتے تھے یعنی ٹیکس نہ دینے کے چیمپئن تھے۔ حکومت میں آتے ہی وہ ٹیکس کے چیمپئن بن گئے لیکن ڈیڑھ برس میں انہوں نے کتنا ٹیکس جمع کیا۔ اس کا اندازہ تو ایف بی آر کے چیئرمین کے چھٹیوں پر جانے سے بھی ہو سکتا ہے۔ چیمپئن نے ٹیکس جمع کرنے کے لیے ایف بی آر کے چیئرمین کے طور پر جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ اس عہدے پر آنے سے قبل تک بڑے بڑے لوگوں کو ٹیکس بچانے کے چیمپئن تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے چیمپئن خود سوچیں کہ ٹیکس بچانے کا چیمپئن کس طرح ٹیکس جمع کرنے کا چیمپئن بن جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل عافیہ کو لانے کے چیمپئن تھے، کشمیر کے چیمپئن تھے۔ پاکستان کو دنیا کا بڑا ملک بنانے کے چیمپئن تھے۔ لیکن وہ کسی چیمپئن شپ میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ظفر مرزا صاحب بھی یہ بتاتے وقت یہ سب بھول گئے ہوں گے کہ عمران خان کو پاکستانیوں کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل تیل، آٹا، گیس، بجلی کی قیمتوں کے چیمپئن تھے۔ اب اس سے دستبردار ہو گئے ہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کے پورے نظام کو کھیل بنا لیا ہے اور وہ کھیل ہی میں مصروف ہیں۔ قوم کو الزام تراشی کے ڈرامے میں الجھا رکھا ہے اور آٹا، چینی کا بحران سر پر کود رہا ہے۔ ملک کو برآمدات بڑھانے کے دعویدار چیمپئن حکمران برآمدات کی راہ میں خود رکاوٹ بن گئے ہیں۔ مہنگائی کے بارے میں ٹرانسپیرنسی نے رپورٹ دی تو پوری حکومت پھٹ پڑی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حیثیت ہی کو چیلنج کر دیا گیا۔ پھر یہی باتیں جب اسٹیٹ بینک نے کہہ دیں تو حکومت کو چپ لگ گئی۔ اب وفاقی ادارہ شماریات نے رپورٹ دی ہے کہ 14 ضروری اشیاء مہنگی ہو گئیں۔ اب حکومت نے درآمدات کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ پہلے گندم، اب چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ حکومت ہر چیز کی چیمپئن ہے اور ہر چیمپئن شپ میں فیل ہو رہی ہے۔ چونکہ پوری حکومت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جنرل پرویز وغیرہ کی باقیات پر مشتمل ہے۔ اس لیے سارے شکست خوردہ چیمپئن اس میں جمع ہیں۔ پیپلز پارٹی کی گیلانی حکومت کے گندم اور شکر بحران کے ذمے داران بھی اس حکومت میں ہیں اور نواز شریف دور کے بحرانوں کے ذمے دار بھی، آج کل جو چیمپئن کامیاب ہیں وہ حکومت میں شامل آٹا، اور چینی مافیاز ہیں۔ وزیراعظم مافیاز کے خلاف جنگ کی باتیں کرنے کے چیمپئن تو ہیں لیکن کامیاب اور چیمپئن یہ مافیاز ہی ہیں۔ یہ گندم اور چینی درآمد بھی کریں گے اور بیچیں گے بھی۔ ان کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ وزیراعظم ان کی کابینہ اور ان کو لانے والے زبانی دعوئوں کے چیمپئن بنیں گے۔