خوابوں اور مستقبل پر شب خون

490

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دہائیوں پرانے عارضے کی شفا اور تنازعے کے حل کا جو جادوئی نسخہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے نام سے جیب میں لیے پھرتے تھے آخر کار یہ بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم نتین یاہو کے ساتھ جس طرح کھڑے ہو کر اس پلان کا اعلان کیا وہ انداز از خود قابل اعتراض ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے فریق اسرائیل اور امریکا نہیں اسرائیل اور فلسطینی عوام ہیں۔ امریکی صدر نے ایک فریق کو اپنے پہلو میں بٹھا کر دوسرے فریق کے مستقبل کا فیصلہ سنایا دیا۔ جس فریق کے ماضی، حال اور مستقبل سے یہ تنازع جڑا ہوا ہے اس کو سرے سے منظر ہی سے غائب کردیا گیا تھا۔ یہ پُر رعونت اور نخوت آمیز آمرانہ انداز بتارہا ہے کہ ڈیل آف دی سینچری میں فلسطینیوں کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں۔ یہ کیسی عجیب ڈیل ہے جس میں دومتاثرین میں سے ایک شامل ہی نہیں اور اسے سنے کہے بغیر بالا ہی بالا اس کے مضروب اور مجروح فریق کے مستقبل کا فیصلہ سنا جا رہا ہے۔ یہ تو 1993کے اوسلو معاہدے سے بھی بدتر صورت حال ہے جب اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابن اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کے درمیان معاہدہ ہو رہا تھا اور دونوں کے درمیان امریکا کے صدر بل کلنٹن فاتحانہ انداز میں مسکرارہے تھے۔ گوکہ یاسر عرفات کا چہرہ کسی تمانیت سے محروم اور ان کا انداز خود سپردگی اور لاچارگی کا سا تھا مگر فلسطینیوں کا وجود کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کیا جا رہا تھا۔ اس وقت بھی اسرائیلی وزیر اعظم مسرور ومطمئن تھے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ وہ فلسطین کی مسلح مزاحمت سے نجات حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اب اس مزاحمت سے نمٹنا اور اسے کچلنا فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات کی ذمے داری تھی۔ فلسطینیوں نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا اور حماس اور الفتح دونوں سیاسی اختلافات کے باوجود عسکری تصادم سے بچتے چلے گئے۔ شاید یہی وہ وجہ تھے کہ پہلے اسرائیل اور بعدازاں امریکا بھی یاسر عرفات سے مایوس اور نالاں ہو گئے تھے۔ اس بار تو امریکا نے صدر محمود عباس سمیت کسی فلسطینی راہنما کو اعتماد میں لینے کا تکلف بھی نہیں کیا۔ بلکہ ڈیل آف دی سینچری سے پہلے اور اس کے اعلان کے بعد فلسطینی عوام اجتماعی طور پر اس کی مخالفت میں سراپا احتجاج ہیں۔ جس پر فقط یہ شعر صادق آتا ہے
لوگوں نے احتجاج کی خاطر اُٹھائے ہاتھ
اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا
اس یک طرفہ نادر شاہی انداز کے فیصلے کے اعلان کے موقع پر ٹرمپ نے مجروح اور کمزور فریق کو ہی دھمکایا اور انہیں ڈیل کو قبول نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ مسئلے کی ابتدا اور آغاز کا ملبہ بھی مسلمانوں پر یہ کہہ کر ڈالا کہ شام، اردن اور مصر نے اسرائیل کے قیام کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر حملہ کرکے تاریخی غلطی کی اور اب انہیں دوبارہ یہ غلطی نہیںکرنی چاہیے۔
ٹرمپ کے اس منصوبے میں ’’اعلان بالفور‘‘ کی روح جھانک رہی ہے جس کا نام ’’گریٹر
اسرائیل‘‘ ہے۔ فلسطینی عوام نے بقائے باہمی کے اصول پر چلتے ہوئے ہمیشہ اسرائیل کے قیام کو تاریخ کا جبر سمجھ کر قبول کرنے اور اپنے لیے ایک الگ اور خودمختار وطن کے قیام کا مطالبہ دہرایا مگر امریکا اور اسرائیل نے فلسطینی عوام کے الگ وطن کے قیام کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دی۔ امریکا اور مغربی طاقتیں اسرائیل کے پہلو میں ایک آزاد فلسطینی وطن کے قیام سے خوف محسوس کرتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے پلان نے فلسطینیوں کے خواب چھین لیے۔ زمین تو ان سے پہلے ہی چھین لی گئی اب ان کی آنکھوں میں خواب بھی برداشت نہ ہو سکے۔ بیت المقدس کا مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا فلسطینی عوام کا دیرینہ خواب تھا مگر ٹرمپ نے پہلے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے یہ اشارہ دیا کہ وہ یہ روایتی مقدس شہر اسرائیل کی پلیٹ میں ڈالنے کا ذہن بنا چکا ہے اور اب اس ڈیل نے اس بات پر مُہرِتصدیق ثبت کردی۔ ٹرمپ کے پلان میں فلسطینیوں کو دوسری ریاست کے نام پر جو کچھ دیا جارہا ہے اس کی مثال تلچھٹ کی ہے۔ جس فلسطینی ریاست کی بات کی گئی ہے وہ بھی اپنے دفاع کے حق سے محروم اور اسرائیل کے رحم وکرم پر ہوگی۔ فلسطینی جس مغربی کنارے کو اپنی مجوزہ ریاست کا حصہ سمجھتے تھے اسرائیل نے اس علاقے میں غیر قانونی بستیوں کا ایک جال سا پھیلا دیا ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر جس علاقے میں ایک غیر قانونی بستی تھی اب اس پورے علاقے میں ایسی یہودی نوآبادیوں کا پورا
جال پھیل چکا ہے۔ اقوام متحدہ ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھتا ہے۔ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں مگر اسرائیل ان بستیوں کی حفاظت بھی کرتا ہے اور انہیں سہولتیں بھی فراہم کرتا ہے گویا کہ توسیع پسندی کا ایک عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوں فلسطینیوں کے اپنے وطن میں اجنبی بن جانے کا جو سلسلہ مدتوں سے شروع ہو اہے یہ اس کا پایۂ تکمیل ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا اس پر بے ساختہ تبصرہ تھا کہ یروشلم برائے فروخت نہیں۔ یوں امریکا اور اسرائیل نے باہمی طور پر مشرق وسطیٰ کے قضیے کو طاقت اور طاقت ور کے اصول کے تحت حل کر دیا۔ کمزور کو رونے کے حق سے محروم کرکے اسے غلطی کا خمیازہ بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں اور عزت اور سرفرازی کے ساتھ جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا مگر اس میں فلسطینیوں کے لیے نیا کچھ نہیں۔
امریکا روز اول سے اسرائیل کے لیے مہربان چھائوں بنا ہوا ہے اور فلسطینی مدتوں سے دربدر اور آبلہ پا ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے عرب اتحادیوں سے الگ اور تنہا کرنے کا جو عمل مصر اسرائیل کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے شروع ہوا تھا اب تک جاری ہے۔ اسرائیل کے بمبار طیاروں کے نیچے اور خوفناک ہتھیاروں کے آگے فلسطینیوں کے لیے کوئی سائبان ہے نہ ڈھال وہ اپنے دکھ جھیلنے کے لیے پہلے بھی تنہا تھے اب بھی ہیں۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن کا خواب پورا تو نہیں سکتا ہے۔ ڈیل آف دی سینچری کی تھیلی سے یہ کچھ برآمد ہونے کے بعد یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ جو ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی عوام کے ساتھ یہ سلوک روا رکھ سکتا ہے وہ کشمیر پر ثالث بن کر جنوبی ایشیا میں کیا کرتب دکھائے گا اور کیا قیامتیں ڈھائے گا؟۔