کورونا وائرس کی وباء

279

اطلاعات کے مطابق چین میںکورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 132 تک پہنچ چکی ہے جبکہ وائرس سے متاثرہ افراد کے 1459 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں چار پاکستانی طلبہ بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ چین میں 28 سے 30 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں سے ووہان شہر میں 500 پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ اپنے طلبہ سے رابطے میں ہے۔ چین کے شہر ووہان میں پھنسے طلبہ کے والدین نے حکومتِ پاکستان سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں سے متعلق وہ بہت فکر مند ہیں، حکومت اُنہیں چین سے نکالنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے، جس پر ترجمان دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ وہان میں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کا فیصلہ تنہا وزارت خارجہ کو نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو کرنا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چین میں پھنسے پاکستانیوں سے رابطوں کے فقدان کا معاملہ بیجنگ کیساتھ اٹھایا ہے۔ دوسری جانب چینی حکام کے مطابق بدھ تک کورونا وائرس سے تصدیق شدہ متاثرہ افرادکی کل تعداد 5974 تک پہنچ چکی ہے جبکہ مشتبہ کیسز کی تعداد 9 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، سیکڑوں غیرملکی شہریوں کو متاثرہ شہر ووہان سے نکال لیا گیا ہے۔
ووہان سے شروع ہونے والا یہ وائرس چین کے دوسرے شہروں کے علاوہ فضائی سفر کرنے والوں کی بدولت دنیا کے 16 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ تھائی لینڈ، فرانس، امریکا، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات سمیت 16 دیگر ممالک میں کم از کم 47 کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے جس کے بعد جاپان، امریکا اور کئی یورپی ممالک تیزی سے اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی حکومت نے چین سے واپس آنے والے اپنے 600 شہریوں کو دو ہفتے تک ملک سے دوہزار کلومیٹر دور ایک الگ جزیرے پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرونا وائرس کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سے چین میں سب پہلا جانی نقصان 2002 میں ہوا تھا۔ نظام تنفس کو شدید متاثر کرنے والی یہ بیماری جسے سارس کہا جاتا ہے اور جو کرونا وائرس کی وجہ سے پھوٹی تھی اس سے 8098 متاثرہ افراد میں سے 774 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دریں اثناء حالیہ صورتحال پر چینی صدر شی جن پنگ نے کورونا وائرس کو شیطان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین اسے ہرحال میں شکست دے گا جب کہ چین کی وزارت صحت نے چینی صدر کے حکم پر متاثرہ علاقوں میں امدادی ٹیمیں بھیجنے کے علاوہ ملک بھر میں الرٹ جاری کرتے ہوئے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے سمسٹر بھی موخر کر دیے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق چین میں وائرس سے متاثرہ بہت سے شہروں میں سفری پابندیاں عائد ہیں، سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبائی کے مرکزی اضلاع میں نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ ووہان شہرمیں ہرطرف سناٹا اور سڑکیں سنسان ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات قابل اطمینان ہے کہ یہاںاب تک کسی شخص کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ بعض ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی تصدیق چونکہ پاکستان میں ممکن نہیں ہے اس لیے جن لوگوں کو شک کی بنیاد پر لاہور کے بعض اسپتالوں میں لایاگیا ہے ان کے آر این اے کے ٹیسٹ نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد بھجوائے گئے ہیں اور مزید تصدیق کے لیے یہ سیمپل چین بھی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں سے ان میں کورونا وائرس کی باضابطہ تصدیق ممکن ہوسکے گی۔ دوسری جانب اس نئے وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف شدید بخار ہوتا ہے بلکہ سانس لینے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کرونا وائرس نزلے کی علامت سے شروع ہو کر مریض کی ہلاکت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہ وائرس میمل جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے جس کا پیشگی تدارک تو فی الحال ممکن نہیں ہے البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ بعض سخت حفاظتی تدابیر اختیار کر کے اس خطرناک مرض کا مقابلہ ممکن ہے۔ چونکہ یہ اس وائرس کی ایک ایسی نئی قسم ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں پائی گئی، اس لیے اب تک کوئی ایسی ویکسین سامنے نہیں آئی جو اس وائرس کے خلاف کارآمد ثابت ہو۔ تاہم محققین کا دعویٰ ہے کہ وہ جلد ہی ایسی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے ذریعے اس موذی مرض پر قابو پایاجاسکے گا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سارس وائرس سیویٹ کیٹ نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا جب کہ نظام تنفس کی بیماری مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (میرس) جو اونٹوں کی ایک نسل سے انسانوں میں 2012 میں سامنے آیا تھا سے اب تک 2494 افراد متاثر ہو چکے ہیں اور اس سے 858 ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ ماہرین کا استدلال ہے کہ ایک مرتبہ اگر یہ پتا چل جائے کہ یہ وائرس کس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تو اس کا علاج کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس نئی وباء کے بارے میں ایک امر جو اطمینان کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس بظاہر انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیلتا۔ البتہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے نئے وائرسز کے بارے میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ کھانسی اور چھینکوں کا باعث بنتے ہیں جو اس جان لیوا وائرس کے پھیلنے اور پھیل کر زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔