متاثرین بحریہ ٹاون کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد

566

عوامی نمائندوں کے ایوانوں میں محض چند افراد رکھنے والی جماعت اسلامی پاکستان ملک کی وہ واحد سیاسی و مذہبی پارٹی ہے جو سیاسی اور سماجی خدمت بھی بطور عبادت کیا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بلا تفریق ملک کے تمام شہروں کے لوگوں کو درپیش مسائل کے سدباب کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگوں کے مسائل بھی اس کی وسعت کی طرح پھیلے ہوئے ہیں مگر جماعت اسلامی کراچی اپنے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں سب معاملات اور مسائل سے نجات کے لیے بلا تفریق سرگرم رہتی ہے۔ اس لیے کراچی کیا پورے ملک کے لوگوں کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کے نامزد نمائندوں کو آئندہ کسی بھی سطح کے انتخابات میں کامیاب کرکے ایوانوں میں زیادہ تعداد میں بھجوائیں۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کا اصل مقصد انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے صرف انسانیت کی خدمت ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے جماعت اسلامی کراچی ان دنوں بحریہ ٹائون کراچی کے کم و بیش سوا لاکھ متاثرین کو ان کا حق دلانے کے لیے سڑکوں پر احتجاجی دھرنے دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو متاثرین کے مجموعی طور پر کھربوں روپے پھنس جانے کا احساس ہے۔ اسی وجہ سے وہ ان متاثرین کی آواز بنی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کی بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کے لیے جاری جدوجہد اس لیے مثالی ہے کہ ان متاثرین کی مدد کے لیے کوئی اور سیاسی جماعت سامنے نہیں آئی اور نا ہی ان کے ساتھ تعاون کررہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’معاملہ‘‘ بحریہ ٹائون اور ملک ریاض کا ہے۔ یہ وہی ملک ریاض حسین ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ’’میں اپنی فائلوں پر پہیے لگا دیتا ہوں جس کے بعد فائل اپنی منزل پر خود پہنچ جاتی ہے‘‘۔ فائلیں منزل پر پہنچا کر بھی آج ملک ریاض حسین وہاں نہیں پہنچ سکے جو ان کا ہدف ہے۔ ملک ریاض اپنے اور بحریہ ٹائون کے خلاف اٹھنے والی آواز کو بھی یقینا اپنے اسی مخصوص فارمولے کے تحت دبانے کی کوشش کرتے رہے ہوںگے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کو نہ دبایا جاسکتا ہے اور خریدا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بحریہ ٹائون کے متاثرین کو بھی ادارہ نور حق عزیز ہوگیا ہے۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ صرف جماعت اسلامی ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے ان کی آواز متعلقہ زمے داروں تک پہنچ سکتی ہے۔ لوگوں کو یقین ہے کہ جماعت اسلامی اپنی جدوجہد سے تمام متاثرین بحریہ ٹاؤن کو ان کا حق ملک ریاض اور ان کے بحریہ ٹائون سے دلا سکتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں اس اسکیم کی، بحریہ ٹائون کراچی میں متاثرین کے مجموعی طور پر چار کھرب 44 ارب روپے پھنس چکے ہیں۔ تاہم بحریہ ٹاون کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق 4 کھرب 60 ارب روپے عدالت عظمیٰ میں 6 سال کی مدت میں جمع کرانا ہے۔ مگر لاکھوں افراد سے پلاٹوں کی بکنگ وغیرہ اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے بدلے میں حاصل کی جانے والی یہ رقم کہاں جائے گی؟، اس سے صوبے سندھ اور وفاق کو کیا کچھ ملے گا اور متاثرین کیا کچھ حاصل کر پائیں گے؟، یہ بات ابھی طے ہونا باقی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے یہ بھی علم نہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز کی جانب سے جمع کی جانے والی رقم کس اکائونٹ میں جمع ہورہی۔ جبکہ فیصلے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ابھی بحریہ ٹائون کراچی ملک ریاض حسین کی ملکیت میں نہیں ہے انہیں ملکیت کا حق اس وقت ملے گا جب وہ 460 ارب یا 4 کھرب 60 ارب روپے کی پوری رقم عدالت عظمیٰ کے اکاوئٹس میں جمع کرادیں گے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بحریہ ٹاؤن کا کنٹرول عدالت عظمیٰ کے پاس ہے۔
شہریوں کو شاید یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ بحریہ ٹاون کی انتظامیہ نے مجموعی طور پر 25 ہزار ایکڑ زمین پر ہائوسنگ پروجیکٹ بناکر کام شروع کیا تھا تاہم اب بحریہ ٹائون کے پاس 18 ہزار نو سو ایکڑ زمین ہے دیگر زمین کی الاٹمنٹ اور لیز عدالت عظمیٰ کے حکم سے منسوخ کی جاچکی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے زمین کی مد میں عائد کیا جانے والا جرمانہ 460 ارب روپے۔ اس حوالے سے بحریہ ٹائون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح 18 ہزار نو سو ایکڑ اراضی ملک ریاض حسین یا ان کے ادارے کو دو کروڑ 75 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے پڑی۔ جبکہ اس اراضی کو ملک ریاض نے اوسطاً 40 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدا تھا۔ اس طرح ملک ریاض حسین نے بحریہ ٹاؤن سے جو غیر معمولی آمدنی حاصل کرنے کا ہدف رکھا تھا یقینا وہ اب حاصل نہیں ہوسکے گا۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹائون کو اپنی زمین پر کام جاری رکھنے کا تو حکم دیا ہے۔ تاہم الاٹیز کے تحفظ کے حوالے سے کوئی واضح حکم سامنے نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ الاٹیز کو مختلف مسائل اور شکایات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ بحریہ ٹائون نے تمام پلاٹس، مکانات اور فلیٹس وغیرہ کی بکنگ مختلف مارکیٹنگ ایجنٹس کے ذریعے کی ہے جیسے کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے۔
بحریہ ٹائون کے قریبی اور ملک ریاض حسین کے قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹائون کے مسئلے سے چھوٹے سرمایہ کار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں جنہوں نے اسکیم کے آغاز میں بھاری منافع کے لالچ میں بیک وقت کئی پلاٹس کی بکنگ کرالی تھی۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ان کے پلاٹس ان سے خریدنے میں لوگوں نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا جس سے ان کی پریشانی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ان ایجنٹس کے پاس بیش تر کمرشل اور بڑے رہائشی پلاٹس ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بحریہ ٹائون اسکیم میں 125 اور 250 مربع گز پلاٹوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں قبضہ ملنے کے بعد بعض الاٹیز اپنے مکانات میں رہائش بھی اختیار کرچکے ہیں۔ مگر بحریہ ٹاؤن کے لیے اصل مشکلات اس اراضی پر بک کیے گئے پلاٹس کی ہیں جو عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد اب بحریہ ٹائون کی باؤنڈری سے باہر ہوچکے ہیں۔ ان الاٹیز کو رقوم واپس کرنا بحریہ ٹاؤن کے لیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض الاٹیز نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ ان کے چیک باؤنس ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے بحریہ ٹائون کے ہیڈ افس میں لوگوں کا غیر معمولی رش بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو جلد سے جلد ان ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔ انہیں اطمینان ہے کہ جماعت اسلامی ان کی مدد کے لیے عملی طور پر سامنے آچکی ہے۔
جماعت اسلامی کا مسئلہ سیاست نہیں ہے کہ بلکہ اس کا اصل مسئلہ پریشان حال الاٹیز کی مدد کرنا اور ان کو ان کا حق واپس دلانا ہے۔ یقینا اس کوشش کو ملک بھر میں مثبت نظروں سے دیکھا جارہا ہوگا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے الاٹیز کے مسائل کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے بعد عدالت سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ متاثرین کو چاہیے کہ وہ جماعت کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کے علاوہ اس سے ہر ممکن تعاون بھی کریں تاکہ جماعت اپنے اعلانات کے مطابق متاثرہ افراد کو بلا تاخیر انصاف دلاسکے۔