ریاست مدینہ میں مسئلہ کشمیر

203

شبانہ ایاز
اچھا کیا وزیراعظم صاحب نے اپنا رخ مدینے سے واشنگٹن کی جانب موڑ لیا، ورنہ اگر اب مدینے کا نام لیتے تو لوگ یاد نہ دلا دیتے کہ مدینے والے تو دشمن کے لاؤ لشکر کے مقابلے میں اپنی بے سروسامانی کی حالت میں محض دین کی سر بلندی کے لیے میدان بدر جا پہنچے تھے۔ آپ دنیا کی بہترین فوج کے وزیراعظم اور ایٹمی قوت ہوتے ہوئے دنیا کے کھوکھلے بیانات کا حوالہ دے کر پاکستان کے عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں۔ تاریخ اسلام میں مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ کمزور مسلمانوں کی داد رسی کی ہے۔ عباسی خلیفہ محتصم بامراللہ نے بوڑھی عورت کی شکایت کے ازالہ کے لیے فوج کو عموریہ (عیسائی ریاست) پر چڑھائی کا حکم دیا۔ عباسی خلیفہ نے اس موقع پر یادگار جملہ بولا تھا ’’تلوار نجومی سے زیادہ سچ بولتی ہے‘‘۔ سراندیب (موجودہ لنکا) سے بحری راستے راجا داہر کی قزاقی کا شکار مسلمان لڑکی کی پکار پر حجاج کی مدد کے نتیجے میں سندھ کا دارالسلام بن جانا اسی تلوار اور اسلامی حکمرانوں کی دادرسی کا کرشمہ تھا۔
کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنا اب مودی سرکار کے بس کی بات نہیں۔ کشمیری مسلمان 90 برس سے جبر و استبداد سے نجات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیریوں نے 1931میں ڈوگرہ راج سے آزادی کے لیے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا، کشمیری مسلمانوں نے پہلے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قائد حریت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں تحریک مزاحمت شروع کی اور آج سید علی گیلانی چودھری غلام عباس کے بعد بھارت کے خلاف نبردآزما تمام کشمیری رہنماؤں کے غیر متنازع قائد ہیں۔کشمیریوں نے پہلے ڈوگرہ راج اور بعد ازاں بھارتی جبر و استبداد سے آزادی کے لیے ایک لاکھ سے زائد اپنے جوانوں، بچوں اور بزرگوں کی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ ہزاروں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزت و آبرو کی چادر تار تار ہوئی۔ آج پورا مقبوضہ کشمیر جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
مودی سرکار نے تمام حریت قائدین، سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ احتجاج کرنے والے اور گھروں سے نکلنے والے ہزاروں کشمیریوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو اس شرط پہ رہا کرنے کا کہا کہ وہ رہائی کے بعد خاموش رہیں گے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے لیکن عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے مودی سرکار کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 ختم کرکے بھارت میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا تھا۔ بھارت کی ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی کے اس اقدام کے بعد ہی سے مقبوضہ وادی میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور وادی میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ سمیت تمام راستے کھلے ہیں۔ اس مسئلہ کی بنا پر اب تک تین جنگیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو چکی ہیں اور چوتھی جنگ کے خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ کشمیری اگر اپنی آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائیں تو انہیں اس کا اختیار جنیوا کنونشن بھی دیتا ہے۔ جبکہ اسلام جبر واستبداد کے خلاف جہاد کا حکم تو دیتا ہی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو اس جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مودی حکومت جنگی جنون میں مبتلا ہے۔
کشمیر کا نوجوان بھارتی فورسز کی گولیوں کے آگے سینہ تانے کھڑا ہے۔ بین الاقوامی قانون رائٹ ٹو سیلف ڈیٹرمینیشن یہ واضح کرتا ہے کہ جب کسی آبادی پر قبضہ اور ظلم اور استبداد ہو اور بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جارہے ہوں تو وہاں پر مسلح جدوجہد ضروری ہو جاتی ہے۔ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور مالی حمایت ضروری ہے۔ عالمی ادارے اور طاقتیں مودی کی پشت پر ہیں۔ کشمیر میں اسرائیل کا پلان آزمایا گیا ہے۔ انڈیا دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ لیکن کشمیری فلسطینیوں کی طرح اکیلے نہیں ہیں۔ انڈیا کے مسلمانوں کی طرف سے بھی ردعمل آرہا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ 2020 میں سکھ انڈیا میں ریفرنڈم کروانے جارہے ہیں۔ آزادی کی بیش تر تحریکیں انڈیا میں چل رہی ہیں۔ اسام میں مسلمانوں نے انڈیا توڑنے کی تحریک شروع کردی ہے۔
جب ہمارے وزیراعظم امریکا سے ثالثی کا کہتے ہیں تو امریکا کا پلان ہے کہ پاکستان کا کشمیر، انڈیا کا کشمیر اور جو حصہ چین کے پاس(گلگت بلتستان) ہے، اس سب کو ملا کر خود مختار کشمیر بنا دیا جائے۔ لیکن امریکا کی حیثیت اور اس کا حشر افغانستان میں دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ امریکا کی یہ ثالثی کشمیریوں کو منظور نہیں ہوگی نہ انڈیا اپنا کشمیر چھوڑے گا۔ کشمیری انڈیا کے ساتھ خوش نہیں ہیں۔ انڈیا بھی امریکا کو ثالث نہیں مانتا۔ انڈیا اگر مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھتا ہے تو اس کا کیس کمزور ہے۔ وہ کبھی بھی یونائیٹڈ نیشن کی قراردادوں کو نہیں مانے گا۔ امریکا سے انڈیا پر صرف دباؤ ڈلوایا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کی تحریک حریت کی مکمل حمایت کرے اور آخری گولی اور آخری سپاہی تک مدد جاری رکھے۔ انڈیا سے جنگ میں نقصان سے نہ ڈرا جائے بلکہ نبی پاکؐ کی غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھا جائے، جس میں انڈیا سے جنگ جیتنے کی بشارت ہے۔