سقوط کشمیر اور یوم کشمیر

565

یوم کشمیر کے موقع پر قومی اسمبلی نے معمول کے تمام امور کو معطل کرکے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی محاصرے کو زیر بحث لانے کی قرارداد کو منظور کرلیا ہے اور بھارتی جارحیت کے خلاف مشترکہ قرارداد پیش کردی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی اسپیکر کے ڈائس پر کشمیر کا پرچم بھی رکھ دیاگیا ہے ۔ بھارت نے گزشتہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ۔ بھارت کے اس اقدام کو آج پورے چھ ماہ ہوجائیں گے ۔ بھارت نے یہ اقدام کوئی چوری چھپے نہیں کیا تھا ۔ اس کا ذکر کئی ہفتوں سے جاری تھا ۔ یہ اقدام کیے جانے سے قبل اور بعد میں اب تک حکومت پاکستان کی مجموعی کارکردگی یہی رہی ہے جس کا مظاہرہ پیر کو قومی اسمبلی میں کیا گیا یعنی نشستند ، گفتند اور برخاستند۔ پیر کو بھی قومی اسمبلی میں اصل معاملے کو زیر بحث لانے سے گریز کیا گیا کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوںکے عین مطابق ہی ہونا چاہیے ۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست میں ضم کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، بھارت اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا اختیا ربھی نہیں رکھتا ۔ مگر بھارت نے چھ ماہ قبل نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دھڑلے سے ختم کی بلکہ تقریبا چار ماہ قبل اسے بھارتی ریاست میں عملی طور پر ضم بھی کرلیا ۔ پاکستانی قیادت عملی طور پر مودی کا ساتھ دے رہی ہے کہ وہ اصل مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگرکرنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد کی دہائی دیتی رہتی ہے ۔ یعنی اگر بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈاؤن ختم کردے اور وہاں کے باشندوں پر ظلم بند کردے تو پاکستان کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے ۔ اس شہ رگ پر بھارت نے قبضہ کرلیا ہے اور پاکستانی قیادت عملی طور پر سوتی رہی ۔ عمران خان نیازی تو جو کچھ کرتے رہے ہیں ، اس پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا ۔ سقوط مشرقی پاکستان کی طرح سقوط کشمیر بھی تاریخ کی کتابوں میں زندہ رہے گا اور اس کے سارے کردار بھی ۔ حیرت تو ارکان قومی اسمبلی پر ہے کہ وہ بھی عمران خان نیازی کی قوالی میں ہم آواز ہیں ۔ انہیں تو عمران خان نیازی کو بتانا چاہیے کہ پاکستانی عوام کی کیا خواہش ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کے کیا مضمرات ہوں گے ۔ قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کے بجائے عمران خان سے پورے سال کا حساب پوچھا جائے کہ جب انہیں علم تھا کہ مودی کے کیا ارادے ہیں تو انہوں نے اس کی پیش بندی کیوں نہیں کی ۔ عمران خان سے کشمیر کی آزادی کے لیے ان کے پاس تقریروں کے سوا کون سا عملی منصوبہ ہے ۔ یہ بہترین موقع ہے کہ کشمیر کو بھارتی پنجے سے چھڑانے کے لیے باقاعدہ روڈ میپ بنایا جائے ۔ جہاں تک قراردادوں کی بات ہے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ، سلامتی کونسل ، اسلامی کانفرنس تنظیم ، غیر وابستہ ممالک کی تنظیم سمیت دنیا کے ہر فورم پر منظور کی جاچکی ہیں ۔ جب ان قراردادوں کے کچھ اثرات نہیں نکلے تو پاکستان کی قومی اسمبلی کی کیا حیثیت ہے۔ یہ انتہائی اہم اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے ، اسے عمران خان کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ عمران خان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے وزیر مملکت برائے انسداد منشیات نے اطلاع دی ہے کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ چرس سے دوا بنانے والی فیکٹری لگائی جائے ۔ وزیر موصوف نے یہ بھی اطلاع دی ہے عمران خان نیازی کی اس اہم خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کام بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ عمران خان نیازی کی راج ہٹ کو دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو مسئلہ کشمیر جیسے اہم مسئلے کو اپنے ہاتھ میںلے لینا چاہیے اور اس ضمن میں قوم کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے ۔ اگر پارلیمنٹ نے بھی اس اہم ترین مسئلے کو نشستند ، گفتند اور برخاستند تک محدود رکھا تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ سقوط کشمیر کے جرم میں ارکان پارلیمنٹ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ ملائیشیا اور ترکی جیسے اہم اور طاقتور ملک مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے زیادہ متحرک ہیں ، چین نے بھی اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔ گواہ تو سارے ہی چست ہیں بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مدعی بھی سستی سے باہر نکلے ۔یورپی یونین میں بھارت کے خلاف قرارداد پیش ہونا ایک تاریخی موقع تھا اور اس کی روشنی میںبھارت کے خلاف پابندیاں بھی متوقع تھیں مگر پاکستان کی سستی نے بھارت کو اس قرارداد کو موخر کروانے کا بھرپور موقع فراہم کیا ۔ ارکان پارلیمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ابھی یا پھر کبھی نہیں والا موقع ہے ۔ عمران خان نیازی نام تو ٹیپو سلطان کا لیتے ہیں مگر ان کا اب تک کا عملی کردار میر صادق کا ہے ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد پتا چلے گا کہ اراکین قومی اسمبلی حقیقی عملی منصوبے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر وہ بھی زبانی توپوں کی فائرنگ اور ٹوئٹس کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔