ماتم یا اظہار یک جہتی

119

حبیب الرحمن
سنا ہے کہ 5 فروری 2020 کو پاکستان کی حکومت کشمیریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر اظہار یک جہتی منانے والی ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی پاکستان کب نہیں کرتارہا۔ ایک طویل مدت سے ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ کبھی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اور کبھی جمعہ کے جمعہ آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتا چلا آیا ہے۔ میں آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یک جہتی کے اس اظہار کا مقصد و مدعا پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ جب تک کشمیر پر بھارت کا تسلط بھارت ہی کے آئین و قانون کے مطابق غیر قانونی تھا اس وقت تک تو ان سے یک جہتی کے زبانی کلامی اظہار کا مطلب و مفہوم کسی حد تک سمجھ میں آتا تھا لیکن جب سے وہ وادی کشمیر جس پر بھارت نے بزورِ شمشیر قبضہ کیا ہوا تھا اس کو اپنی آئینی حدود میں لیکر اس کو مکمل طریقے سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے تو پھر 5 فروری کو کیا جانے والا یک جہتی کا اظہار میرے نزدیک ایک بے معنیٰ بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر اس یک جہتی کے اظہار کو حکومت پاکستان کی جانب سے خیال کیا جائے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم بھارت کا کشمیر پر قانونی و عسکری تسلط جائز سمجھتے ہیں؟۔ اگر اس یک جہتی کو آزاد کشمیر کے کشمیریوں کی جانب سے لیا جائے تو کیا دونوں جانب کے کشمیراب ایک کشمیر سمجھے جانے چاہئیں؟۔ پہلے تو پوری وادی ’’کشمیر‘‘ ہی ہوا کرتی تھی اس لیے کہ اقوام عالم کے نزدیک کشمیر ایک متنازع علاقہ تھا اور اس کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ خواہ آزاد رہے چاہے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لے لیکن اب اقوامِ عالم کے نزدیک جو پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کا ہے اور جس کو اب بھارت نے قانونی طور پر اپنا قرار دیدیا ہے وہ بھارت کا حصہ ہے۔ اگر یہ بات اقوام عالم میں طے شدہ نہ سمجھی جاتی تو بھارت کی اتنی جرات کب ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی آئین و قانون میں ترمیم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیتا۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو رہی بلکہ یہ گمان یقین سے بھی بڑھ کر ذہن و دل میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کہ کشمیر کا سودا کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ تو حکومت پاکستان کشمیر کے سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کشمیر (آزاد) والوں کو یہ اجازت دینے کے لیے تیار ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی عملی مدد و اعانت کر سکیں۔ اگر کشمیر (آزاد) ایک آزاد و خود مختار علاقہ ہے تو ان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے اور ان کی مدد کرنے کے لیے اپنے ہی کشمیر میں داخل ہونے سے پاکستان کشمیریوں (آزاد) کے لیے کیوں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو یہ ابہام پیدا کرتا ہے کہ یا تو آزاد کشمیر بھی بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی طرح پابند کشمیر ہے یا پھر بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا معاہدہ ہو چکا ہے جو پاکستان کو کسی بھی قسم کی عملی جدوجہد سے روکے ہوئے ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے قانونی قبضے کو 6 ماہ ہونے کو آ رہے ہیں اور پاکستان کا یہ عالم ہے کہ اب تک لفظوں کے گولے اور ٹوئٹروں کے مزائیل داغنے کے سوا کوئی اور مثبت پیش رفت نہیں کر سکا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستان کی زود پشیمانی ملاحظہ کریں کہ خبروں کے مطابق کشمیر کے سلسلے میں ’’قومی اسمبلی کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی اجلاس پیر کو شروع ہو گیا۔ اسپیکر ڈائس پر پاکستان کے ساتھ کشمیر کا پرچم بھی رکھ دیا گیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی مقبوضہ کشمیر کے بھارتی محاصرے کو زیربحث لانے کی تحریک کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور بھارتی جارحیت کے خلاف مشترکہ قرارداد پیش کردی گئی ہے‘‘۔ مزید پشیمانی اظہار کچھ یوں کیا گیا کہ ’’چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر سے ارکان کو آگاہ کیا۔ اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر میں تاحال کرفیو کے نفاذ کا ذمے دار وفاقی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ کشمیر پر کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے جبکہ جماعت اسلامی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جہاد کے اعلان کا مطالبہ کر دیا ‘‘۔
خبر سن اور پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے پاکستان کی اعلیٰ پارلیمنٹ کے ارکان تک نا واقف ہیں اور ان سب کے لیے بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ انہیں کشمیر کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ایک نوزائیدہ بھی خوب اچھی طرح واقف ہوتا ہے لیکن ہمارے ذمے داران اس حد تک غیر ذمے دار ہیں کہ ان کو پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح سمجھانااور بتانا ضروری خیال کیا گیا۔