اپنی نااہلی کا الزام او آئی سی پر

419

وزیراعظم پاکستان نے ملائیشیا کا دورہ کرکے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر معذرت کرلی اور اس موقع پر ملائیشیا کانفرنس سے متعلق کہا کہ دوستوں کا خیال تھا کہ ملائیشیا کانفرنس مسلم اُمہ کو تقسیم کردے گی۔ لیکن اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ کانفرنس اُمہ کو متحد کرنے کے لیے تھی۔ وزیراعظم نے اس موقع پر یہ نشاندہی بھی کی کہ یہودی تعداد میں کم ہونے کے باوجود طاقتور ہیں اور مسلمان بھاری اکثریت ہونے کے باوجود بحران کا شکار ہیں۔ ہماری کوئی آواز نہیں کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔ مسلم دنیا کی تو حالت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کا سربراہ اجلاس تک نہیں بلا سکتے۔ مودی کی انتہا پسندی کا جن بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہاں تک جو باتیں کی ہیں ان سے اتفاق کیا جانا چاہیے بلکہ ان کا اعتراف اور معذرت پاک ملائیشیا تعلقات اور اتحاد اُمہ کے حوالے سے اہمیت کا حامل بھی ہے۔ یہ خیال درست ہی تھا کہ کوالالمپور کانفرنس او آئی سی پر ضرب لگائے گی اور وزیراعظم نے ملائیشیا میں او آئی سی کو ہدف تنقید بنا کر یہ ثابت کیا کہ اس کے نتیجے میں او آئی سی کمزور ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے ایک طرف امت مسلمہ کے بحران کا ذکر کیا اور دوسری طرف یہ شکوہ بھی کیا کہ ہماری کوئی آواز نہیں۔ لیکن خان صاحب یورپ، امریکا، روس اور دیگر غیر مسلم ریاستیں بھی بڑے بڑے بحرانوں کا شکار ہونے کے باوجود اپنے اجتماعی مفادات کے حوالے سے ایک ہیں اور ان مفادات کا بھرپور تحفظ کرنا بھی جانتی ہیں۔ اس کا سبب ان کا متحد ہونا یا تقسیم ہونا نہیں ہے بلکہ ان کا شعور ہے کہ ان کا مفاد کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں، خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے ان کا کیا مفاد ہے، وہ یہ خوب جانتے ہیں۔ امت مسلمہ میں بھی بہت انتشار ہے لیکن حکمرانوں میں شعور کی کمی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ امت کا مفاد کس چیز میں ہے۔ وزیراعظم نے مسلم دنیا کی حالت کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تو یہ حالت ہے کہ کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بھی نہیں بلا سکتے۔ تو جناب اس میں او آئی سی یا مسلم ممالک کے انتشار سے زیادہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ناکامی کا دخل ہے۔ مسلم ممالک کو یہ سمجھانا تو پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ کا کام تھا کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے اور اس کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت اور سابقہ حکمرانوں کو بھی بار بار یہ توجہ دلائی گئی کہ کشمیر پر سنجیدہ سفارتی مہم شروع کی جائے لیکن کسی نے اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ موجودہ دور میں تو کشمیر میں ساری خرابیاں حد سے بڑھ گئیں۔ 5 اگست کا اقدام، بابری مسجد کا فیصلہ اور متنازع شہریت خاتون اس کی روشن میں بھی پی ٹی آئی نے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ وہ عقل کل ہی رہی اس پر نتیجہ تو یہی ہونا تھا۔اگر معاشی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان بہت سے مسلم ممالک سے کمزور ہے لیکن اسٹریٹجک نقطۂ نظر اور فوجی قوت کے اعتبار سے پاکستان امت مسلمہ کا صف اول کا ملک ہے۔ اپنی اس طاقت کے بل پر پاکستان او آئی سی سے بہت کچھ منوا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عمرہ و حج کرنے والے پاکستانی ہوتے ہیں لیکن ہماری حکومت ان سے اپنے حاجیوں کے لیے رعایتیں اور اخراجات میں کمی کا مطالبہ نہیں منوا سکتی۔ اس میں امت مسلم کے انتشار یا نا اہلی کا کیا ذکر۔ سراسر نااہلی تو حکومت پاکستان کی ہے۔ حج میں تو کوئی سیاسی دبائو بھی نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ ریونیو پاکستان سے ملتا ہے تو پاکستانی حکومت شرائط نہیں منوا سکتی تو پھر کشمیر پر کیسے منوائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر بالآخر یوٹرن لے لیا اور آئندہ کانفرنس میں شرکت کا اعلان بھی کردیا۔ او آئی سی پر وزیراعظم کی تنقید سے یقیناً اس ادارے میں مزید کمزوری آئے گی۔ یہ تو خیر دوسرے مسلم حکمرانوں کے سوچنے کی بھی بات ہے کہ او آئی سی کمزور کیوں ہو رہی ہے اور ملائیشیا اور ترکی کی طرف امت مسلمہ کا رخ کیوں ہو رہا ہے؟ لیکن عمران خان دنیا میں کہیں بھی جائیں پاکستانی سیاست دانوں اور کرپٹ عناصر کی شکایتیں ضرور کرتے ہیں چنانچہ ملائیشیا میں بھی یہی کام کر گئے۔ کہنے لگے کہ مہنگائی مافیا نے قیمتیں بڑھا دیں۔ خمیازہ غریبوں نے بھگتا۔کارٹیل قیمتوں میں اضافہ کرے ملک کو پیچھے دھکیلنے کے درپے ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ وزیراعظم کی باتوں کو درست بھی مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ بات ان کو کوئی تو سمجھائے کہ ڈیڑھ سال ہونے کو ہے اب انہیں یہ گردان بند کردینی چاہیے۔ اب پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمے دار ان کی حکومت ہے۔ کب تک دوسروں کی دہائی دیتے رہیں گے۔ جہاں تک مہنگائی بڑھانے کا الزام مافیاز پر ہے تو عمران خان کو بھی اچھی طرح پتا ہے کہ مافیاز کون ہیں ان کے بغیر ان کی حکومت نہیں چل سکتی، لیکن ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ نے تو کچھ اور بتایا تھا اس پر پوری حکومت نے شور مچایا۔ پھر اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے اسباب بیان کر دیے، اس پر کیا کہیں گے۔ اسٹیٹ بینک میں تو گورنر اور ڈپٹی گورنر ان کے اپنے لگائے ہوئے ہیں۔ اور اب ادارہ شماریات پاکستان نے بھی یہی بتایا ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ان اقدامات کا ذکر بھی کیا ہے جن کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ یہ دونوں ادارے تو پاکستانی ہیں۔ وزیراعظم مافیاز کے بارے میں بیرون ملک بیانات دینے کے بجائے پاکستان میں مافیاز کے خلاف کارروائی کریں۔ یہ بھی ان کی حکومت کی نالائقی ہے۔ اب بیرون ملک پاکستان کے معاملات کا رونا چھوڑیں۔ اس سے قبل کہ کوئی غیر ملکی رہنما یہ کہہ دے کہ تمہارے ملک کی مافیاز کا ہم کیا کریں، اپنے جھگڑے خود نمٹائو۔ وہ تو کشمیر اور بھارت سے تنازعات بھی خود نمٹانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب اب شکایتیں بند اور اقدامات شروع کریں۔